Tuesday, 10 June 2025

The young author, poet, and podcaster Sahibzada Huzaifa Ashraf Asmi, presents a unique and insightful interview with Dr. Hammad Ahmad Bhatti — a multifaceted personality in civil service, medicine, and literature

 شعبہ قانون سے  منسلک  نوجوان مصنف ، شاعر پوڈ کاسٹر  صاحبزادہ حذیفہ اشرف  عاصمی کا 

 سول سروس، طب ، ادب کی ہمہ جہت شخصیت ڈاکٹر حماد 

احمد بھٹی کا منفرد اور بصیرت افروز انٹرویو



 علمی اور فکری دنیا میں چند شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنے متنوع اور منفرد سفر کی بدولت نہ صرف خاص مقام حاصل کرتی ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی مشعل راہ کا کام دیتی ہیں۔ ڈاکٹر حماد احمد بھٹی ایسی ہی ایک شخصیت ہیں، جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنے ہنر اور جذبے سے ایک مثالی مقام حاصل کیا ہے۔ وہ نہ صرف ماہر امراضِ جلد (Dermatologist) ہیں بلکہ ایک سابق سی ایس پی افسر، محقق، شاعر، ادیب اور فکری رہنما بھی ہیں۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو ایک دوسرے سے مربوط ہے، اور یہی ان کی کامیابی کی وجہ بھی ہے کہ انہوں نے مختلف شعبوں کو یکجا کرتے ہوئے ایک بھرپور اور متحرک زندگی گزاری ہے۔ڈاکٹر حماد احمد بھٹی کی زندگی کا سفر روایتی راستوں سے ہٹ کر ایک منفرد داستان پیش کرتا ہے۔ ایک طرف وہ سفید کوٹ کی شان و شوکت میں محو نظر آتے ہیں تو دوسری طرف بیوروکریسی کی سخت اور منظم دنیا میں بھی ان کا لوہا مانا جاتا ہے۔ لیکن ان کی اصل پہچان ان کا ادبی اور تخلیقی رجحان ہے، جو انہیں عام سرکاری ملازمین سے ممتاز کرتا ہے۔ ادب اور تخلیق سے محبت ان کے خاندانی ماحول اور والدین کی تعلیم یافتہ شخصیت سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔ والد جنہوں نے تعلیم کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں اور والدہ جن کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر بنے، یہ تمام عوامل ڈاکٹر حماد کی زندگی کے اہم سنگ میل ثابت ہوئے۔ڈاکٹر حماد احمد بھٹی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے والدین کی خواہشات کو پورا کرنے کے بعد اپنی دل کی سن کر ادب، تحقیق اور طب کے میدان میں گہرا سفر شروع کیا۔ ان کا یہ فلسفہ کہ علم اور تخلیق انسان کی زندگی کا حقیقی سرمایہ ہیں، انہیں ہر میدان میں کامیابی کی جانب لے گیا۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ علم بانٹنے اور خیر پھیلانے کے مشن پر گامزن ہیں۔ڈاکٹر حماد کی شخصیت کا ایک اور اہم پہلو ان کی بچپن سے جڑی تخلیقی سرگرمیاں ہیں۔ انہوں نے اسکول کی سطح پر سکاؤٹنگ، ڈیبیٹس، شاعری اور کھیلوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔ والد کا قول کہ "تعلیم کی قیمت پر کوئی سرگرمی نہیں روکی جائے گی"، ان کی شخصیت کی تشکیل میں اہم ثابت ہوا۔ وہ خود بھی مختلف کھیلوں میں قائدانہ کردار میں رہے اور لکھنے، بولنے اور تخلیق کرنے کا شوق ان کے اندر پلتا رہا۔ان کی ادبی خدمات کی بات کی جائے تو ان کی مختلف کتابیں اور شاعری ان کے گہرے فکری و روحانی رُخ کی عکاس ہیں۔ ان کی حالیہ کتاب "بارش، کھڑکی، پھول اور چائے" ایک ایسے سفر کی عکاسی کرتی ہے جو تنہائی سے محفل تک پہنچاتا ہے، اور جس میں ادب ایک ہمسفر کی مانند ہے۔ ان کی شاعری خاص طور پر غزل کی صنف میں مہارت رکھتی ہے، جسے وہ جیولری بنانے کے فن کی مانند ناز و نخرے سے تخلیق کرتے ہیں۔ڈاکٹر حماد احمد بھٹی کا ادبی سفر پنجابی زبان کی خدمت سے بھی عبارت ہے، جہاں انہوں نے پنجابی میں شعری مجموعہ "ساوے رکھ" کے ذریعے اپنی ماں بولی کو ادب کا حصہ بنایا۔ ان کی دیگر کتابیں جیسے"

تمھارے مسکرانے سے" اور "مجھے تم یاد آتے ہو" بھی ان کے جذبات اور فکری سوچ کی عمدہ ترجمانی کرتی ہیں۔علاوہ ازیں، ان کا بیرون ملک سفر اور وہاں کے تجربات بھی ان کی فکری وسعت اور ادبی افق کو وسیع کرنے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ امریکہ کے مختلف شہروں میں گزارا گیا وقت اور امریکی عدالتی نظام کا مشاہدہ، ان کے علمی اور ادبی ذخیرے میں ایک نیا باب کھولا۔ڈاکٹر حماد احمد بھٹی کی زندگی کی کہانی صرف ایک کامیاب ڈاکٹر یا ایک بہترین افسر کی داستان نہیں، بلکہ یہ ایک ایسے انسان کی کہانی ہے جس نے علم، محبت، ادب اور تخلیق کو اپنی زندگی کا فلسفہ بنا لیا۔ ان کی شخصیت کا جوہر یہ ہے کہ انہوں نے ہر منصب، ہر وقار، ہر اختیار سے بڑھ کر اندر کی روشنی کو اہمیت دی، اور اسی روشنی سے انہوں نے اپنے فکری و ادبی سفر کو زندہ رکھا۔یہ تفصیلی نشست ڈاکٹر حماد احمد بھٹی کی زندگی کے ان رنگین اور کثیرالجہتی پہلوؤں کو سامنے لانے کی کوشش ہے، جہاں انہوں نے سفید کوٹ سے ادبی سنگھاسن تک کا جو سفر طے کیا، وہ نہ صرف متاثر کن ہے بلکہ ان کے لیے ایک مشعل راہ بھی ہے جو بتاتی ہے کہ محنت، جذبہ اور تخلیق کی روشنی میں انسان اپنی حدود کو کیسے توڑ سکتا ہے۔شارجہ کی علمی و فکری فضا میں ایک منفرد اور باوقار نام، ڈاکٹر حماد احمد بھٹی ایک ایسا نام جو بیک وقت میڈیسن، بیوروکریسی، ادب، تحقیق اور فکری جہانوں کا مسافر رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک ماہر امراضِ جلد (Dermatologist) ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سابق سی ایس پی آفیسر بھی رہے ہیں۔ لیکن جو چیز انہیں منفرد بناتی ہے وہ ان کی تخلیقی، ادبی اور فکری وابستگی ہے، جو بظاہر سخت نظم و ضبط والے شعبوں سے تعلق رکھنے والے فرد میں کم ہی دکھائی دیتی ہے۔اس نشست کا آغاز میں نے ایک سادہ سوال سے کیا، لیکن جیسے جیسے گفتگو آگے بڑھتی گئی، ایک ایک پرت کھلتی گئی۔"ڈاکٹر صاحب، ایک سی ایس پی آفیسر ہوتے ہوئے میڈیکل، ادب اور تخلیق کی طرف رجحان کیسے پیدا ہوا؟ اور اس تخلیقی و تعلیمی سفر کا آغاز کہاں سے ہوا؟"ڈاکٹرصاحب نے کہا اگر ہم یہ بات کریں کہ سی 

ایس پی آفیسر، پھر میڈیسن، اور ساتھ میں رائٹنگ تو یہ ساری چیزیں، میرا ماننا ہے، تخلیق سے جُڑی ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو تخلیق کیا، اور فرمایا کہ ‘میں نے آدم کو پیدا کیا، پھر اسے تمام علم سکھائے’۔ تو اگر ہم کھلے دل و دماغ سے سیکھنے اور ماننے کو تیار ہوں تو راستے خود کھلتے چلے جاتے ہیں۔"ڈاکٹر حماد کا کہنا تھا کہ ان کے والد، جو ایک تعلیم یافتہ اور تعلیمی شعبے سے وابستہ شخصیت تھے، ان کی زندگی میں بنیادی کردار رکھتے ہیں۔ وہ ڈائریکٹر ایجوکیشن کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ والد کی خواہشات، خواب اور ان کا خاندانی پس منظر ہی وہ عوامل تھے جنہوں نے ڈاکٹر حماد کو تخلیق اور تحقیق کی راہوں پر گامزن کیا۔"میرے والد چاہتے تھے کہ جو خواب وہ خود نہ دیکھ سکے، ہم ان خوابوں کو پورا کریں۔ اور میری والدہ کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں، سو میں نے سب سے پہلے ان کی خواہش پوری کی۔ پھر والد صاحب کی خواہش پر سی ایس پی جوائن کیا۔ اور جب یہ دونوں خواہشیں پوری ہو گئیں، تو پھر میں نے دل کی سنی، اور ادب، تحقیق اور طب کے راستے کو اپنی زندگی کا مشن بنایا۔"ڈاکٹر صاحب مزید بتاتے ہیں:"تو ایک وقت آیا کہ میں نے وائٹ کوٹ (ڈاکٹر کا روپ) اتارا اور کوٹ پینٹ (سی ایس پی آفیسر) پہنی، پھر دوبارہ اتاری اور دوبارہ وائٹ کوٹ پہن لیا۔ اور الحمدللہ، آج بھی اسی راستے پر ہوں، علم بانٹنے اور خیر پھیلانے کے راستے پر۔"سکاؤٹنگ سے لیکر تخلیقی سرگرمیوں تک ہم نے سکاؤٹنگ، ڈیبیٹس، اور سکول لائف میں تخلیقی سرگرمیوں پر بات کی تو ڈاکٹر صاحب نے نہایت محبت سے اپنے بچپن اور والد صاحب کا ذکر کیا:"میرے والد جب سکول کے پرنسپل تھے تو وہ طلبا کو ہمیشہ مختلف سرگرمیوں میں شامل کرتے۔ جب والدین ہچکچاتے کہ بچوں کی پڑھائی کا کیا ہوگا، تو والد صاحب کہا کرتے کہ ’سب سے پہلے میرا بچہ جائے گا، پھر باقی جائیں گے، لیکن یہ سب تعلیم کی قیمت پر نہیں ہوگا‘۔"وہ بتاتے ہیں کہ وہ اسکول میں سکاؤٹنگ، ڈیبیٹس، رائٹنگ، پوئٹری، یہاں تک کہ سکول بینڈ کے منیجر بھی رہے۔"ہاکی، کرکٹ، فٹبال تینوں ٹیمز میں تھا۔ اور ہر ایک میں لیڈ کرتا رہا۔ میرا ماننا ہے کہ اگر آپ خیر بانٹتے ہیں، تو خیر آپ کے پاس لوٹ کر آتی ہے۔ یہی کارماہے۔"ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ان کے والد ان کے لیے تقریریں لکھتے تھے، اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ والد صاحب نے کہا:"بیٹا، مجھے فلاں فنکشن میں جانا ہے، کچھ لکھ کے دے دو"۔اب وہ والد کے لیے لکھنے لگے۔ وہ لمحہ ان کی زندگی کے اہم موڑوں میں سے تھا۔کتابیں، خیالات اور شاعری کا سفرمیں نے ڈاکٹر صاحب کی حالیہ کتاب "بارش، کھڑکی، پھول اور چائے" کا ذکر چھیڑا، تو وہ کچھ دیر خاموش رہے، جیسے کسی یاد کے گہرے سمندر میں اتر گئے ہوں۔"یہ کتاب بس یوں سمجھیے کہ تنہائی سے محفل کی طرف ایک سفر ہے۔ آپ کھڑکی کے پاس بیٹھے ہوں، باہر بارش ہو رہی ہو، پاس پھول ہوں، ایک کپ چائے ہو اگر ایک ہمسفر ساتھ ہے تو بہت خوب، اور اگر نہیں بھی ہے، تو ایک اچھی کتاب ہی کافی ہے۔"ان کی باتیں گویا ادب کے ساتھ روحانی تعلق کا پتا دیتی ہیں۔"جب مجھ سے پوچھا گیا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی کیسے گزارنا چاہتے ہو؟ تو میں نے کہا: بارش، کھڑکی، پھول اور چائے بس یہی میرا کائنات ہے۔"اس کتاب میں صرف غزلیں شامل ہیں، اور ان کے مطابق غزل شاعری کی سب سے میچور صنف ہے۔"غزل لکھنا ایسے ہے جیسے جیولری بنانا ایک ایک حرف، ایک ایک بحر اور وزن پر باریکی سے کام کرنا پڑتا ہے۔"وہ بتاتے ہیں کہ ان کی خوش نصیبی ہے کہ انہیں عباس تابش، خورشید فاق، خالدندیم شانی اور احمد سعید جیسے شعرا ء کا ساتھ میسر آیا، جنہوں نے ان کی شاعری کو جِلا بخشی۔

اس سے پہلے میری پنجابی کتاب ساوے رکھ آئی، جس میں پنجابی نظمیں اور غزلیں شامل تھیں۔ ساوے رکھ یعنی ہری بھری شاخیں۔ پنجابی ہماری ماں بولی ہے، لیکن اسے لکھنا، پڑھنا آسان نہیں۔ سی ایس ایس میں جب پنجابی کو آپشنل سبجیکٹ رکھا تو وہاں سے لکھنے کا حوصلہ پیدا ہوا۔""اس سے پہلےتمہارے مسکرانے سے آئی، جس میں خوشی، وصل، امید اور محبت شامل تھی کبھی مایوسی نہیں۔ اور سب سے پہلی کتاب تھی مجھے تم یاد آتے ہو، جو آزاد نظمیں تھیں۔ وہ میرے طالب علمی کے دور کی یادگار ہے، اور اس میں ریاض مجید صاحب کا بہت کردار رہا۔ایک سفر نامہ بھی لکھا۔ یہ اس وقت لکھا جب میں امریکہ گیا تھا، امریکی عدالتوں کا مشاہدہ کرنے کے لیے۔ وہاں کے کلچر، ماحول، لوگوں سے جو کچھ سیکھا، وہ نہ صرف زندگی کے لیے بلکہ ادب کے لیے بھی خزانہ بن گیا۔"انہوں نے ایک دلچسپ بات بتائی:"جب میں نارتھ کیرولائنا میں رہا اور ڈیڑھ مہینے بعد نیویارک گیا، تو وہاں کے دوستوں نے کہا: ‘بھٹی صاحب، آپ اب امریکہ آئے ہیں یہ ہے اصلی امریکہ! 

ڈاکٹر حماد احمد بھٹی کی گفتگو نہ صرف معلوماتی تھی بلکہ روحانی اور فکری سطح پر بھی ایک تجربہ تھی۔ ان کی زندگی کئ جہات ڈاکٹر، سی ایس پی آفیسر، شاعر، ادیب، محقق سب ایک دوسرے میں یوں پیوست ہیں کہ ایک مکمل شخصیت تشکیل پاتی ہے۔ان کے اشعار ان کی شخصیت کا عکس ہیں

میرے ہی نام چاہتوں کا ہر نصاب کر دیا

تیرے کرم نے مجھ کو صاحبِ کتاب 

کر دیاتمہاری دوستی سے پہلے کافی پارسا تھے ہم

مگر تمہاری بزم نے ہمیں خراب کر دیا

ڈاکٹر صاحب کی یہ زندگی ایک پیغام ہےعلم، محبت، ادب اور تخلیق وہ خزانے ہیں جو دل میں اتر 

جائیں، تو پھر منصب، اختیار، پروٹوکول سب پیچھے رہ جاتے ہیں باقی رہ جاتی ہے تو بس ایک "اندر کی روشنی"۔

ڈاکٹر حماد احمد بھٹی کی زندگی کا سفر ایک منفرد اور رنگین داستان ہے، جو ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ محنت، جذبہ، اور تخلیق کی روشنی میں انسان اپنی حدود کو پار کر سکتا ہے۔ وہ صرف ایک ماہر امراضِ جلد یا سابق سی ایس پی افسر نہیں بلکہ ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی علمی، فکری، اور ادبی صلاحیتوں کو یکجا کر کے ایک مکمل انسان کی مثال قائم کی ہے۔ ان کی زندگی کے ہر پہلو میں علم و ادب کی روشنی جھلکتی ہے اور یہی ان کی سب سے بڑی پہچان ہے۔ڈاکٹر حماد کی کہانی ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ والدین کی خواہشات اور اپنے دل کی سن کر اپنی منزل تک پہنچنا ممکن ہے۔ انہوں نے اپنے والدین کے خوابوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی دلچسپیوں کو بھی پروان چڑھایا، جو ان کی کامیابی کی بنیاد بنی۔ ان کی تخلیقی سرگرمیاں، شاعری، اور تحقیق اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسان میں پوشیدہ صلاحیتیں کتنی بھی مختلف ہوں، انہیں ایک ساتھ لے کر چلنا ممکن ہے۔ادب، تحقیق، اور طب کے میدان میں ان کا سفر اس بات کی علامت ہے کہ زندگی کی راہیں جتنی بھی مختلف کیوں نہ ہوں، اگر مقصد بلند اور خلوص دل سے ہو تو کامیابی یقینی ہے۔ ڈاکٹر حماد احمد بھٹی کی زندگی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ علم، محبت، اور تخلیق کو اپنی زندگی کا حصہ بنا کر ہم نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی مشعل راہ بن سکتے ہیں۔آخر میں، ڈاکٹر حماد کی شخصیت میں ایک اندرونی روشنی اور جذبہ موجود ہے جو ہر مقام اور منصب سے بڑھ کر ان کی اصل طاقت ہے۔ یہی روشنی انہیں ایک حقیقی فکری رہنما بناتی ہے، جو اپنی تحریر، شاعری اور علمی خدمات کے ذریعے معاشرے میں علم و شعور کی روشنی پھیلاتے رہتے ہیں۔ ان کی یہ زندگی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ حقیقی کامیابی صرف اختیار و منصب میں نہیں، بلکہ انسان کے دل اور دماغ کی روشنی میں ہوتی ہے۔

3 جون بروز منگل مجلس ترقی ادب کی جانب سے ڈاکٹر حماد احمد بھٹی کی کتاب"ارش، کھڑکی، پھول اور چائے" کی تقریبِ پزیرائی اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ کتاب اور مصنف کی شخصیت پر اظہارِ خیال کرنے والوں میں عباس تابش، صوفیہ بیدار، اکرام عارفی، رحمان فارس، ایڈوکیٹ میاں محمد اشرف عاصمی،پیرزادہ میاں عمر اشرف عاصمی،صاحبزادہ حذیفہ اشرف عاصمی، ڈاکٹر محمد انور گوندل اور خالد ندیم شانی شامل تھے۔ مشاعرے کی صدارت عباس تابش صاحب نے فرمائی جبکہ دیگر شعرا کرام میں صاحبِ شام ڈاکٹر حماد احمد بھٹی، صوفیہ بیدار، ڈکٹر سہیل انور، راغب تحسین، اکرام عارفی، راول حسین، زنیر نقوی اور خرم آفاق شامل تھے۔ نظامت کے فرائض خالد ندیم شانی نے سر انجام دیے۔

انکی کتاب "بارش کھڑکی پھول اور چائے" سے انکی یہ غزل دیکھئے۔

بارش ، کھڑ کی ، پھول اور چائے

مجھ کو تیری یاد ستائے

لگتی ہے وہ چاند کی جیسی

ہاتھوں پر ٹھوڑی کو سجائے

چائے میں تصویر تمہاری

 پیالی میں طوفان اٹھائے

نئی بہار نے پھول گلابی

اس کے جوڑے میں پہنائے

بیٹھی ہے وہ گم صم کب سے

اور لیوں سے کچھ نہ بتائے

ہجر کی دھوپ میں اس کی چھاؤں

چلتا ہوں میں سائے سائے

اس کے باغ سے آتا جھونکا

رقص درختوں کو سکھلائے

وہ شیشے کی دھند پہ حماد

میرا نام ہی لکھتی جائے

Fifteen Hours That Shook South Asia — The Dawn of a New Era, A book Written By Huzaifa Ashraf Asmi

 Fifteen Hours That Shook South Asia — The Dawn of a New Era








 

On a bright morning in May 2025, as the world awoke to what seemed like an ordinary day, a storm began tos a comprehensive work that covers all significant aspects of the May 2025 Pakistan-India war. It is far more than a battlefield account—it provides a complete picture of intellectual, military, diplomatic, psychological, journalistic, and technological warfare. It reveals how Pakistan, in just fifteen hours, forced a larger and heavily armed enemy to its knees.
The contents of the book are arranged in a coherent and compelling sequence, consisting of 45 chapters, each examining the war from a different brew on the horizon of South Asia. In just fifteen hours, the course of history was forever changed. This war, which shattered the arrogance of the enemy, was a reflection of Pakistan's military superiority, national unity, and unwavering resolve—one that stunned the entire world.
This shockwave has been captured with research and documentary precision by a young intellectual, law student, poet, and motivational podcaster, Sahibzada Huzaifa Ashraf Asmi, in his remarkable and groundbreaking new book, “Fifteen Hours That Shook South Asia.”
This book is not just a war analysis; it is a mirror of Pakistan’s defense history, ideological foundation, and national character. It is not mere reporting—it is an intellectual and research-based masterpiece that will convey the message of sacrifice, truth, and patriotism to future generations.
“Fifteen Hours That Shook South Asia” i angle. Each chapter encapsulates a world of its own, drawing the reader into those intense moments of the past.
The first chapter evokes the early battles of Islam, where faith, wisdom, and sacrifice led to victory. This prologue sets the tone that the May 2025 war was not just about firepower—it was a war of ideology, unity, and belief.
The leadership of General Asim Munir has been given special emphasis in the book. His strategic brilliance, insight, and swift decisions are presented as the cornerstones of Pakistan's victory. The author describes him as a potential future Field Marshal and portrays his persona as a symbol of national unity.
The book analyzes how India’s continuous provocations and failure in negotiations paved the way for war. Border skirmishes, media warfare, and military mobilizations were clear signs that South Asia was on the brink of a new crisis.
The most significant and critical front was Kashmir. The swift actions of the Pakistan Army, the support of local Kashmiris, and a well-coordinated strategy resulted in India’s crushing defeat. The book narrates how key territories were secured without civilian casualties.
The air war is described in vivid detail—highlighting the performance of JF-17 Thunder, the failure of India’s Rafale jets, and the exceptional efficiency of Pakistan’s air defense systems.
The naval chapter recounts operations in the Arabian Sea, the destruction of Indian submarines, and the bravery of the Pakistan Navy.
But this war was not fought with conventional arms alone. The book explores Pakistan’s cyber warfare capabilities and drone strikes in depth. By exposing the vulnerabilities of the Indian defense system, the author explains how Pakistan's advanced war tactics effectively crippled the enemy.
A unique feature of this book is its focus beyond the battlefield—it sheds light on the role of the people. The unity of the nation, positive media reporting, and the patriotic response of the youth on social media during the war are testaments that this was not just the army’s war—it was a war fought by the entire nation.
The author also illustrates how India’s military and political leadership suffered from incompetence, poor planning, and weak communication. Airstrikes on Delhi, internal mutinies, and troop withdrawals highlighted India’s weaknesses.
The book also emphasizes how Pakistan strictly adhered to international laws, the Geneva Conventions, and human rights during the war. Contrary to Indian propaganda, Pakistan’s media showcased the truth, and the world acknowledged Pakistan’s stance.
The author discusses the future of South Asia post-war. Will peace prevail, or will a silent conflict continue? Can India recover from its internal crisis? These are the critical questions addressed in the final chapters of the book.
“Fifteen Hours That Shook South Asia” is not merely a book—it is a documentary mirror. It is a beautiful blend of research, observation, and patriotism that touches the heart of every Pakistani. It has everything a true patriot needs to know—enemy strategies, the sacrifices of our forces, the media’s role, the resilience of the people, and the triumph of the nation.
This book is a gift for all those who love Pakistan, seek the truth, and wish to tell future generations that when faith, unity, and sacrifice come together, even a small nation can defeat the mightiest of enemies.
The author is a young, talented, and enlightened individual who is not only a law student but also a motivational speaker, poet, and historian. His effort proves that the new generation of Pakistan is not only emotionally charged but also intellectually awake. This book is a reflection of his passion, knowledge, and love for the homeland.
“Fifteen Hours That Shook South Asia” does not only narrate the events of the May 2025 war; it tells the story of a new national spirit. It teaches us to learn from past mistakes, stay resolute in the present, and prepare for the future.

This book is a source of pride, a lesson, and a guiding light for every Pakistani. Read it, understand it, and pass it on to the next generation.

Saturday, 24 May 2025

Fifteen Hours That Shook South Asia Bok By Huzaifa Ashraf asmi ...پندرہ گھنٹے جو جنوبی ایشیا کو ہلا گئے — ایک نئی تاریخ کا آغاز

 Fifteen Hours That Shook South Asia

By Huzaifa Ashraf Asmi


پندرہ گھنٹے جو جنوبی ایشیا کو ہلا گئے — ایک نئی تاریخ کا آغاز



مئی 2025 کی ایک روشن صبح جب دنیا معمول کے مطابق جاگ رہی تھی، جنوبی ایشیا کے افق پر ایک طوفان نے جنم لیا۔ صرف پندرہ گھنٹے میں تاریخ کا دھارا بدل گیا۔ دشمن کے غرور کو خاک میں ملانے والی یہ جنگ، پاکستان کی عسکری برتری، اس کی قومی یکجہتی، اور غیر متزلزل عزم کا ایسا مظہر تھی جس نے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔

اس حیرت کو تحقیق اور دستاویزی شکل میں سمویا ہے نوجوان دانشور، قانون کے طالب علم، شاعر اور موٹیویشنل پوڈکاسٹر صاحبزادہ حذیفہ اشرف عاصمی نے اپنی نئی اور غیر معمولی کتاب ''Fifteen Hours That Shook South Asia'' میں۔

یہ کتاب نہ صرف ایک جنگی تجزیہ ہے بلکہ پاکستان کی دفاعی تاریخ، نظریاتی اساس، اور قومی کردار کا آئینہ بھی ہے۔ یہ صرف ایک رپورٹنگ نہیں، بلکہ ایک فکری اور تحقیقی شاہکار ہے جو آنے والی نسلوں کو قربانی، سچائی اور حب الوطنی کا پیغام دے گا۔

''Fifteen Hours That Shook South Asia'' ایک جامع کتاب ہے جو مئی 2025 کی پاک بھارت جنگ کے تمام اہم پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ محض لڑائی کی روداد نہیں، بلکہ ایک فکری، عسکری، سفارتی، نفسیاتی، صحافتی اور تکنیکی جنگ کی مکمل تصویر ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ کیسے پاکستان نے صرف پندرہ گھنٹوں میں ایک بڑے اور جدید ہتھیاروں سے لیس دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے۔

کتاب کے مندرجات ایک مربوط اور زبردست تسلسل سے ترتیب دیے گئے ہیں جن میں 45 ابواب شامل ہیں، جو مختلف زاویوں سے اس جنگ کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہر باب اپنے اندر ایک جہان سموئے ہوئے ہے، جنہیں پڑھ کر قاری ماضی کے ان لمحوں میں خود کو موجود پاتا ہے۔

کتاب کا پہلا باب ہمیں اسلام کی ابتدائی جنگوں کی یاد دلاتا ہے، جہاں ایمان، حکمت، اور قربانی کے ذریعے فتح حاصل کی گئی۔ یہ تمہید دراصل اس بات کو واضح کرتی ہے کہ مئی 2025 کی جنگ بھی صرف بارود کی نہیں تھی، بلکہ نظریے، اتحاد اور ایمان کی تھی۔

کتاب میں جنرل عاصم منیر کی قیادت کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ ان کی حکمت عملی، بصیرت، اور فوری فیصلے اس جنگ میں پاکستان کی کامیابی کے بنیادی ستون بنے۔ مصنف نے انہیں ممکنہ طور پر مستقبل کا فیلڈ مارشل قرار دیا ہے، اور ان کی شخصیت کو قوم کے اتحاد کی علامت بنا کر پیش کیا ہے۔

کتاب اس بات کا تجزیہ کرتی ہے کہ کس طرح بھارت کی طرف سے پے در پے اشتعال انگیز اقدامات اور مذاکراتی ناکامی نے جنگ کا راستہ ہموار کیا۔ سرحدی جھڑپیں، میڈیا وار، اور عسکری نقل و حرکت اس بات کا اشارہ تھیں کہ جنوبی ایشیا ایک نئے بحران کے دہانے پر ہے۔

سب سے بڑا اور اہم محاذ کشمیر تھا۔ پاکستانی افواج کی چابک دستی، مقامی کشمیریوں کی حمایت، اور ایک مربوط حکمت عملی نے بھارت کو بری طرح شکست دی۔ کتاب بتاتی ہے کہ کیسے پاک فوج نے بغیر شہری نقصان کے اہم مقامات پر قبضہ حاصل کیا۔

کتاب میں فضائی جنگ کو بھرپور تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ JF-17 تھنڈر کی کارکردگی، دشمن کے Rafale طیاروں کی ناکامی، اور ایئر ڈیفنس سسٹم کی غیرمعمولی کارکردگی کو سراہا گیا ہے۔

بحریہ کے باب میں عربین سی میں نیول آپریشنز، بھارتی آبدوزوں کی تباہی، اور پاکستانی بحریہ کی بہادری کا ذکر ہے۔

یہ جنگ محض توپوں کی نہیں رہی۔ کتاب نے پاکستان کی سائبر وارفیئر صلاحیتوں اور ڈرون حملوں کا مکمل جائزہ لیا ہے۔ بھارتی دفاعی نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب کرتے ہوئے مصنف نے یہ بتایا کہ پاکستان کی جدید جنگی صلاحیتیں کس طرح دشمن کی کمر توڑنے میں کامیاب ہوئیں۔

کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ یہ صرف میدان جنگ تک محدود نہیں بلکہ عوام کے کردار کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ جنگ کے دوران قوم کا اتحاد، میڈیا کی مثبت رپورٹنگ، اور سوشل میڈیا پر نوجوانوں کا حب الوطنی سے بھرپور ردعمل اس بات کا ثبوت تھا کہ یہ صرف فوج کی نہیں، پوری قوم کی جنگ تھی۔

مصنف نے یہ دکھایا ہے کہ کس طرح بھارت کی عسکری و سیاسی قیادت کی نااہلی، ناقص منصوبہ بندی، اور کمزور مواصلاتی نظام نے اسے میدان جنگ میں شکست سے دوچار کیا۔ دہلی پر فضائی حملے، اندرونی بغاوتیں، اور فوجی انخلا بھارت کی کمزوریوں کو ظاہر کرتے ہیں۔

کتاب میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ پاکستان نے جنگ کے دوران عالمی قوانین، جنیوا کنونشن، اور انسانی حقوق کا مکمل احترام کیا۔ بھارتی پروپیگنڈے کے برعکس، پاکستانی میڈیا نے سچ دکھایا اور دنیا نے پاکستان کے مؤقف کو تسلیم کیا۔

مصنف نے اس پہلو پر بھی بحث کی ہے کہ جنگ کے بعد جنوبی ایشیا کا کیا مستقبل ہے؟ کیا امن قائم ہو پائے گا یا ایک خاموش جنگ جاری رہے گی؟ کیا بھارت اپنے اندرونی بحران سے نکل پائے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو کتاب کے آخری ابواب میں زیر بحث آئے ہیں۔

''Fifteen Hours That Shook South Asia'' محض ایک کتاب نہیں، ایک دستاویزی آئینہ ہے۔ یہ تحقیق، مشاہدے، اور حب الوطنی کا حسین امتزاج ہے جو ہر پاکستانی کے دل کو چھو جاتا ہے۔ اس میں وہ سب کچھ ہے جو ایک سچے محب وطن کو جاننا چاہیے — دشمن کی چالیں، اپنی افواج کی قربانیاں، میڈیا کا کردار، عوام کی استقامت، اور قوم کی فتح۔

یہ کتاب ایک تحفہ ہے اُن سب کے لیے جو پاکستان سے محبت کرتے ہیں، جو سچ کی تلاش میں ہیں، اور جو نئی نسل کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جب ایمان، اتحاد اور قربانی ایک ہو جائیں، تو ایک چھوٹا سا ملک بھی بڑے سے بڑے دشمن کو شکست دے سکتا ہے۔

اس کتاب کے مصنف ایک نوجوان، باصلاحیت، اور بیدار مغز فرد ہیں جو نہ صرف قانون کے طالب علم ہیں بلکہ ایک موٹیویشنل اسپیکر، شاعر اور مؤرخ بھی ہیں۔ ان کی یہ کوشش اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان کی نئی نسل صرف جذباتی نہیں، فکری طور پر بھی بیدار ہو چکی ہے۔ یہ کتاب ان کے جذبے، علم، اور عشقِ وطن کی علامت ہے۔

''Fifteen Hours That Shook South Asia'' ایک ایسی کتاب ہے جو صرف مئی 2025 کی جنگ کو نہیں، بلکہ ایک نئی قومی روح کو بیان کرتی ہے۔ یہ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے، حال میں ثابت قدم رہنے، اور مستقبل کے لیے تیار رہنے کا سبق دیتی ہے۔

یہ کتاب ہر پاکستانی کے لیے ایک فخر، ایک سبق اور ایک مشعل راہ ہے۔ اسے ضرور پڑھیں، سمجھیں، اور اگلی نسلوں تک پہنچائیں۔

Saturday, 12 April 2025

سورۃ البقرہ کے موضوعات کا باہمی ربط: ایک فکری و روحانی سفرColumn on topic of Sura Albaqra

 سورۃ البقرہ کے موضوعات کا باہمی ربط: ایک فکری و روحانی سفر

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

سورۃ البقرہ قرآن مجید کی سب سے طویل اور جامع سورۃ ہے۔ بظاہر اس میں بہت سے مختلف النوع مضامین، واقعات، احکام اور ہدایات پھیلے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، لیکن جب غور سے پڑھا جائے تو ایک گہرا فکری، روحانی اور عملی ربط ہر حصے میں موجود دکھائی دیتا ہے۔ یہ سورۃ محض آیات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک مسلسل فکری اور اصلاحی سفر ہے، جو انسان کو ایمان، عمل، قربانی، تقویٰ، اور اجتماعی فلاح کی جانب لے جاتا ہے۔سورۃ البقرہ کا آغاز ان آیات سے ہوتا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں اور یہ صرف ان لوگوں کے لیے ہدایت ہے جو متقی ہیں، یعنی جن کے دل اللہ کے خوف سے لبریز ہیں، جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اس تمہیدی بیان میں دراصل ساری سورۃ کا مرکزی پیغام چھپا ہوا ہے — کہ اللہ کی ہدایت صرف وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیں جو خود کو اللہ کے سامنے جھکانے کے لیے تیار ہوں۔اس کے بعد انسانوں کو تین بنیادی گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے: اہل ایمان، کفار اور منافقین۔ اس تقسیم کا مقصد واضح کرنا ہے کہ قرآن کا پیغام کن کے دلوں میں اترے گا، اور کن لوگوں کے لیے یہ پیغام بے اثر رہے گا۔ یہ بھی بتا دیا گیا کہ منافقین کا طرز عمل اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے اور ان کے کردار سے اسلامی معاشرے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔پھر یکایک سورۃ ایک تاریخی باب کی جانب مڑتی ہے — بنی اسرائیل کی تاریخ، ان کی نافرمانیاں، ان پر اللہ کی نعمتیں اور ان کا ناشکری کا رویہ۔ ان کے ساتھ ہونے والے انعامات کا ذکر ہوتا ہے، ان کے انکار کا انجام بیان کیا جاتا ہے، اور ان کے رویے سے سبق لینے کی دعوت دی جاتی ہے۔ یہ تاریخی پس منظر اس لیے دیا گیا تاکہ نو تشکیل شدہ امت مسلمہ بنی اسرائیل کی غلطیوں کو نہ دہرائے، بلکہ اطاعت و قربانی کا وہ معیار قائم کرے جو اللہ کو مطلوب ہے۔اسی پس منظر میں تحویل قبلہ کا واقعہ آتا ہے۔ پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، جو بنی اسرائیل کا قبلہ تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا۔ اس تبدیلی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ اب قیادت بنی اسرائیل سے نکال کر اُمت محمد ﷺ کو دی جا رہی ہے۔ یہ ایک علامتی، روحانی اور عملی تبدیلی تھی جس نے امت مسلمہ کو ان کی انفرادی و اجتماعی شناخت عطا کی۔تحویل قبلہ کے بعد فوری طور پر عبادات اور شریعت کے احکام نازل ہونا شروع ہوئے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، طلاق، نکاح، عدت، قسمیں، قصاص، حلال و حرام، خرید و فروخت، قرض اور تجارت جیسے موضوعات پر مفصل ہدایات دی گئیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جب ایک امت کو قیادت دی جاتی ہے، تو اس پر لازم ہے کہ وہ نہ صرف روحانیت میں ترقی کرے بلکہ دنیاوی معاملات کو بھی اللہ کے حکم کے مطابق منظم کرے۔جہاں عبادات کا ذکر آیا، وہیں اللہ کی راہ میں قربانی اور جہاد کا حکم بھی دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ دین کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں، ان سے لڑائی کی جا سکتی ہے۔ یہ حکم صرف جنگ کا نہیں بلکہ ایک مثالی معاشرے کے دفاع کا اعلان تھا۔ اسلام نہ صرف امن کا دین ہے بلکہ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی بھی تلقین کرتا ہے، تاکہ کمزوروں کو تحفظ ملے اور عدل و انصاف قائم ہو۔ان احکام کے ساتھ ساتھ مالی شفافیت اور سچائی پر مبنی نظام کا بھی خاکہ دیا گیا۔ سود کی حرمت، صدقات کی ترغیب، قرض دینے اور لینے کے احکام، اور یتیموں، مسکینوں کے حقوق کا ذکر دراصل اس بات کی علامت ہے کہ اسلامی نظام صرف نماز و روزہ تک محدود نہیں بلکہ ایک مکمل سماجی و اقتصادی نظام بھی ہے۔ تقویٰ کو صرف ذاتی طہارت تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ معاشرتی معاملات میں بھی اللہ کے خوف کو بنیادی پیمانہ بنایا گیا۔سورۃ البقرہ کے اختتام پر ایک بہت ہی جامع اور پر اثر دعا ہے۔ اس دعا میں ایمان، اطاعت، مغفرت، ذمہ داری اور اللہ کی مدد مانگی گئی ہے۔ اس دعا کا اختتام اس بات پر ہوتا ہے کہ اے اللہ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے باہر ہو، ہمیں معاف فرما، ہم پر رحم فرما، اور ہمیں کافروں کے مقابلے میں فتح عطا فرما۔ یہ دعا گویا اس تمام فکری و روحانی سفر کا نچوڑ ہے، جو اس سورۃ میں بیان ہوا ہے۔اگر ان تمام موضوعات کو ایک ترتیب سے دیکھا جائے تو سورۃ البقرہ ایک مربوط فکری خاکہ پیش کرتی ہے:شروع میں انسان کو اس کی ہدایت کی صلاحیت کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے، پھر سابقہ امت کی تاریخ سے سبق سکھایا جاتا ہے، پھر ایک نئی امت کو قیادت دی جاتی ہے، اس قیادت کے تقاضے بتائے جاتے ہیں، اندرونی اصلاح (عبادات و تقویٰ) اور بیرونی نظم (معاشرتی و معاشی احکام) دیے جاتے ہیں، پھر قربانی، صبر، اور جہاد کی تلقین کی جاتی ہے، اور آخر میں انسان اللہ کے سامنے عاجزی اور دعا کے ساتھ اپنے ایمان کو مکمل کرتا ہے۔یہ ترتیب اس بات کا مظہر ہے کہ اسلام محض عقائد کا نام نہیں، بلکہ ایک مکمل نظامِ زندگی ہے، جس کا ہر شعبہ اللہ کے احکام کے تابع ہوتا ہے۔ سورۃ البقرہ میں موضوعات کے درمیان یہ ربط دراصل ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ایک مسلمان صرف مسجد میں نیک نہیں ہوتا، بلکہ بازار، عدالت، گھر، سیاست، معیشت — ہر میدان میں اللہ کی ہدایت کا پابند ہوتا ہے۔یوں سورۃ البقرہ ایک ایسا منشور بن کر سامنے آتی ہے جو فرد کی اصلاح سے لے کر اجتماعی فلاح تک کی مکمل راہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اس کا ہر مضمون دوسرے سے مربوط ہے، ہر حکم ایک جامع مقصد کا حصہ ہے، اور ہر واقعہ ایک سبق لیے ہوئے ہے۔ یہ سورۃ ہمیں نہ صرف یہ سکھاتی ہے کہ ہم کیا کریں، بلکہ یہ بھی سکھاتی ہے کہ ہمیں کیوں اور کس مقصد کے لیے کرنا ہے۔اس سورۃ کا مطالعہ کرنے والا اگر دل سے غور کرے تو اسے زندگی کا ہر شعبہ اس میں منعکس نظر آئے گا۔ وہ پکار اٹھے گا کہ واقعی یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، اور جو متقیوں کے لیے سراسر ہدایت ہے۔سورۃ البقرہ قرآن مجید کی سب سے طویل سورۃ ہے اور اس میں مختلف تاریخی واقعات کا ذکر کیا گیا ہے، جن کا تعلق انسانوں کی ابتدائی تاریخ، بنی اسرائیل، حضرت آدمؑ، حضرت موسیٰؑ، اور دیگر اہم شخصیات سے ہے۔ یہ سورۃ نہ صرف مذہبی رہنمائی فراہم کرتی ہے بلکہ اس میں بیان کردہ تاریخی حقائق کی صداقت کو غیر مسلم مؤرخین اور دانشور بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس کالم میں ہم سورۃ البقرہ میں بیان کی گئی تاریخ کے بارے میں کچھ اہم پہلوؤں کو زیر بحث لائیں گے اور یہ دیکھیں گے کہ غیر مسلم مؤرخین، مذہبی علماء، اور فلسفی اس تاریخ کو کس طرح دیکھتے ہیں۔سورۃ البقرہ میں حضرت آدمؑ کا ذکر ہے اور ان کے تخلیق کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ نے حضرت آدمؑ کو مٹی سے پیدا کیا اور ان کو اپنی بہترین تخلیق کے طور پر منتخب کیا۔ اس کے بعد حضرت آدمؑ کو جنت میں سکونت دی گئی، جہاں انہیں شیطان کے فریب کا سامنا کرنا پڑا۔یہ واقعہ غیر مسلم مؤرخین اور فلسفیوں کی نظر میں بھی ایک اہم موضوع رہا ہے۔ اگرچہ سائنسی تحقیق کے مطابق انسان کی ابتداء کے بارے میں مختلف نظریات ہیں، مگر یہ بات بھی ثابت ہے کہ انسان کی جڑیں بہت قدیم ماضی میں ہیں۔ کچھ غیر مسلم مؤرخین جیسے کہ چارلس ڈارون نے ''ارتقاء'' کے نظریے کو پیش کیا، مگر اس کے باوجود انسان کی تخلیق کے ابتدائی مراحل پر قرآن کی تعلیمات کی اہمیت اور ان کا تفصیلی ذکر مختلف مؤرخین نے تسلیم کیا ہے۔سورۃ البقرہ میں بنی اسرائیل کے بارے میں کئی اہم واقعات کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں ان کے مصر سے خروج، حضرت موسیٰؑ کی رہنمائی، اور اللہ کی جانب سے ان پر کی جانے والی بے شمار نعمتیں شامل ہیں۔ قرآن میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جب بنی اسرائیل اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں اور ان کی نافرمانی کرتے ہیں تو اللہ کی طرف سے ان کو سزا دی جاتی ہے۔


یہ تاریخ نہ صرف مسلمانوں کے لیے اہم ہے بلکہ غیر مسلم مؤرخین بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ معروف مؤرخ ہیروڈوٹس نے اپنے کام ''تاریخ'' میں مشرقی اقوام کے حالات و واقعات کو بیان کیا ہے، اور اس میں مصر کی تاریخ اور بنی اسرائیل کے مصر سے نکالے جانے کے حوالے سے کچھ حوالے دیے ہیں۔ اس کے علاوہ مسیحی علماء اور تاریخ دان بھی حضرت موسیٰؑ اور بنی اسرائیل کے مصر سے خروج کے واقعے کو تسلیم کرتے ہیں، تاہم ان کی تفصیلات اور انداز مختلف ہوتے ہیں۔سورۃ البقرہ میں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ ابتدا میں مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس تھا، مگر بعد میں اللہ کے حکم سے یہ تبدیل کر کے خانہ کعبہ کو قبلہ بنا دیا گیا۔ یہ ایک اہم تبدیلی تھی جو مسلمانوں کے لیے ایک نیا راستہ تھا۔اس واقعہ کی تصدیق بھی مختلف تاریخی حوالوں سے ہوتی ہے۔ ابن خزیمہ جیسے مسلم علماء نے اس تبدیلی کو صحیح قرار دیا ہے، اور بعض غیر مسلم مؤرخین بھی اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ ہیریٹ سموئل جیسے محققین نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ قبلہ کی تبدیلی نے اسلامی قوم کے اتحاد کو مضبوط کیا اور ایک نئی شناخت فراہم کی۔سورۃ البقرہ میں حضرت عیسیٰؑ کا ذکر کیا گیا ہے اور ان کے آنے والی امت محمدیہ کی پیشگوئی کے حوالے سے بھی بیان کیا گیا ہے۔ قرآن میں حضرت عیسیٰؑ کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے پیغمبر تھے اور ان کی تعلیمات اللہ کے حکم سے تھیں۔

مسیحی علماء اور مؤرخین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ ایک تاریخی شخصیت تھے، تاہم ان کی الوہیت کے بارے میں اختلافات ہیں۔ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ حضرت عیسیٰؑ اللہ کے پیغمبر تھے، نہ کہ اس کے بیٹے، اور اس بات کو قرآن نے واضح کیا ہے۔ غیر مسلم مؤرخین اور علماء، جیسے جان ٹول اور جارج سلیوان نے بھی حضرت عیسیٰؑ کے تاریخی وجود کو تسلیم کیا ہے، اگرچہ ان کے بارے میں مذہبی تفسیریں مختلف ہیں۔سورۃ البقرہ میں سود کی حرمت اور مالی معاملات میں انصاف پر بھی زور دیا گیا ہے۔ قرآن نے سودی لین دین کو حرام قرار دیا اور مسلمانوں کو اس سے بچنے کی ہدایت کی۔ اس بات کو غیر مسلم اقتصادی ماہرین اور مفکرین بھی تسلیم کرتے ہیں۔جان میکنیل جیسے ماہر معاشیات نے سودی نظام کی معاشی نقصانات پر گفتگو کی ہے اور اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سودی قرضوں کا نظام معاشرتی بے انصافی اور مالی بحران کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح کینڈی فاسٹر جیسے ماہرین نے اسلامی مالی نظام کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور اس کی بنیاد پر مختلف تحقیقی مقالات لکھے ہیں۔



Tuesday, 25 February 2025

انصاف کی فراہمی میں رکاوٹیں اور ان کا حلSahibzada Mian Muhmmad Ashraf Asmi Advocate & Human Rights Activist

 Sahibzada Mian Muhmmad Ashraf Asmi Advocate & Human Rights Activist

  انصاف کی فراہمی میں رکاوٹیں اور ان کا حل

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

 میں عدالتی نظام کو درپیش مسائل کی جڑیں کئی عوامل میں پیوست ہیں، جن میں ناقص طرزِ حکمرانی (گڈ گورننس) سب سے نمایاں ہے۔ جب حکومتی ادارے اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طرح سے ادا نہیں کرتے، تو عوام کو اپنے حقوق کے لیے عدالتوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھتا چلا جاتا ہے، اور انصاف کی فوری فراہمی مشکل ہو جاتی ہے۔ناقص گورننس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عوام کو بنیادی حقوق اور سہولیات میسر نہیں آتیں،  حکومتی محکمے  کام نہیں کرتے۔ حالت یہ ہے کہ آپ کسی بھی حکمتی محکمے کے دفتر میں چلے جائیں اول تو عملہ موجود ہی نہیں ہوتا اگر ہو بھی تو کام نہ کرنے کے بہانے  بنائے جاتے ہیں اور عوام کو ذلیل و خوار کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے عدالتوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک سول جج کے سامنے روزانہ ڈھائی سے تین سو کیسز پیش ہوتے ہیں، جبکہ عملی طور پر وہ صرف 40 سے 45 کیسز پر مناسب توجہ دے سکتا ہے۔ عملے کی کمی اور سہولیات کے فقدان کے باعث یہ بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے، جس کے باعث عوام کو تاریخ پر تاریخ ملتی رہتی ہے اور مقدمات کے فیصلے دہائیوں تک التوا کا شکار رہتے ہیں۔قرآن پاک میں اس صورتحال کی نشاندہی ان الفاظ میں کی گئی ہے:''اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں، پھر وہ اس میں نافرمانی کرتے ہیں، پس اس پر عذاب کا حکم ثابت ہو جاتا ہے، پھر ہم اسے برباد کر دیتے ہیں۔'' (سورۃ الإسراء، آیت 16)اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ جب حکمران اور معاشرے کے طاقتور افراد اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتے تو پورے نظام میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہی صورتحال پاکستان میں نظر آتی ہے، جہاں ادارے اپنی بنیادی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہیں، اور اس کا براہِ راست اثر عدلیہ پر پڑتا ہے۔ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کی ایک اور بڑی وجہ ججز اور عدالتی عملے کی کمی ہے۔ جب ایک جج کو روزانہ سیکڑوں کیسز سننے ہوں، اور ساتھ ہی عملے کی کمی کا سامنا ہو، تو انصاف کی فراہمی کا معیار متاثر ہوتا ہے۔ فیصلے لکھنے کے لیے سٹینوگرافر کی عدم موجودگی یا ریڈر کی غیر حاضری بھی مقدمات میں تاخیر کا سبب بنتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا ارشد ہے کہ''جب حکمرانی نااہل لوگوں کے سپرد کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔'' (صحیح بخاری، حدیث نمبر 59) ہمارے عدالتی اور انتظامی نظام کی موجودہ صورتحال پر صادق آتی ہے، جہاں نااہل افراد کی تقرری اور غیر مؤثر حکمرانی کے باعث عوام کو انصاف کے حصول میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔ اگر عدالتی عملے اور ججز کی تعداد بڑھا دی جائے، اور ان کے لیے سہولیات کو بہتر بنایا جائے، تو انصاف کی فراہمی میں نمایاں بہتری آ سکتی ہے۔پاکستان میں انصاف کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ معاشرتی اخلاقیات کی زبوں حالی بھی ہے۔ ایک مثالی معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں لوگ اپنے فرائض دیانت داری سے ادا کریں اور دوسروں کے حقوق کا احترام کریں۔ تاہم، بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں دھوکہ دہی اور جھوٹ عام ہیں، جس کے باعث مقدمات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اگر لوگ قرآن اور سنت کی تعلیمات پر عمل کریں تو عدالتوں کا بوجھ خودبخود کم ہو جائے گا۔قرآن مجید میں اللہ پاک فرماتا ہے ''بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے اور رشتہ داروں کو دینے کا بھی، اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق حاصل کرو۔'' (سورۃ النحل، آیت 90)۔اس آیت میں انصاف اور احسان کو معاشرتی نظام کا بنیادی ستون قرار دیا گیا ہے۔ اگر لوگ خود انصاف پسند اور ایماندار ہو جائیں، تو مقدمات کی تعداد میں نمایاں کمی آ سکتی ہے۔سقراط (Socrates): سقراط کے نزدیک انصاف کسی بھی معاشرے کی بقاء کے لیے لازمی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ انصاف صرف قوانین کی پاسداری نہیں بلکہ ایک اخلاقی فریضہ بھی ہے۔ اگر لوگ اپنے فرائض دیانتداری سے انجام دیں، تو عدالتوں پر بوجھ خودبخود کم ہو جائے گا۔افلاطون (Plato): افلاطون نے اپنی کتاب ''ریپبلک'' میں انصاف کو ریاست کی بنیاد قرار دیا ہے۔ اس کے مطابق، ایک منظم اور انصاف پسند معاشرے میں ہر فرد اپنے فرائض انجام دیتا ہے، اور اس کے نتیجے میں انصاف خودبخود قائم ہو جاتا ہے۔پاکستان میں اگر لوگ اپنے اخلاقی اور قانونی فرائض ایمانداری سے ادا کریں، تو عدالتوں میں مقدمات کی تعداد میں کمی آ سکتی ہے۔ ججز اور وکلا کو بھی اپنے پیشہ ورانہ فرائض کو عبادت سمجھ کر ادا کرنا چاہیے، جیسا کہ سقراط اور افلاطون نے سکھایا۔جان لاک (John Locke): لاک نے قانون کی حکمرانی (Rule of Law) پر زور دیا، جس کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں گڈ گورننس کے فقدان کے باعث لوگوں کو عدالتوں کا رخ کرنا پڑتا ہے، جبکہ لاک کے نظریے کے مطابق ایک مؤثر حکومت کے ذریعے اس بوجھ کو کم کیا جا سکتا ہے۔ژاں ژاک روسو (Jean-Jacques Rousseau): روسو نے سماجی معاہدے (Social Contract) کا تصور پیش کیا، جس کے مطابق حکومت اور عوام کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے کہ ہر فریق اپنی ذمہ داریاں نبھائے گا۔ اگر حکومت اور عوام دونوں اپنے فرائض دیانتداری سے ادا کریں، تو عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم ہو جائے گا۔

جان رولز (John Rawls)نے انصاف کو سماجی مساوات کی بنیاد قرار دیا۔ اس کے مطابق، انصاف کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کے تمام افراد کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں۔ پاکستان میں اگر لوگوں کو برابری کی بنیاد پر حقوق اور سہولیات فراہم کی جائیں، تو عدالتی نظام پر بوجھ کم ہو سکتا ہے۔الگزینڈر ہیملٹن (Alexander Hamilton): ہیملٹن نے ایک مضبوط عدالتی نظام کی ضرورت پر زور دیا۔ اس کے مطابق، ایک مؤثر عدالتی نظام ہی لوگوں کے حقوق کی ضمانت دے سکتا ہے۔ پاکستان میں ججز اور عدالتی عملے کی تعداد بڑھا کر اور ان کے لیے بہتر سہولیات فراہم کر کے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ حکومتی ادارے اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے ادا کریں تاکہ لوگوں کو عدالتوں کا رخ نہ کرنا پڑے۔عدالتی عملے اور ججز کی تعداد بڑھائی جائے: ججز کو مناسب سہولیات فراہم کی جائیں اور روزانہ کے کیسز کی تعداد محدود کی جائے۔لوگوں میں دیانتداری اور ایمانداری کا جذبہ پیدا کیا جائے تاکہ جھوٹے مقدمات کی حوصلہ شکنی ہو۔قوانین کو سادہ اور مؤثر بنایا جائے تاکہ مقدمات کے فیصلے جلد ہو سکیں۔پاکستان میں انصاف کی فراہمی میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے گڈ گورننس، عدالتی نظام کی اصلاح، اور معاشرتی اخلاقیات کی بہتری ضروری ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات، یونانی فلسفیوں کے افکار، اور مغربی مفکرین کی آرا ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ انصاف صرف عدالتوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ پورے معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اگر ہر فرد اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کرے، تو نہ صرف عدالتوں پر بوجھ کم ہوگا بلکہ پورا معاشرہ انصاف اور امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ قارئین محترم: دُنیا  میں خوشحالی کا ایک ہی معیار ہے وہ ہر ہر شعبے میں انصاف ہونا چاہیے۔ جب انصاف نہ ہوگا تو پھر معاشرے معاشی، سماجی عمرانی طور پر شکست و ریخت کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔پاکستان میں خوشاحالی کے لیے نظام  انصاف کو بہتر کرنا ہوگا۔ سارا بوجھ عدالتوں کی بجائے  تمام حکومتی محکمہ  جات کو ایمانداری سے کام کرنا ہوگا تب ہی عدالتوں پر سے جو مقدمات کا پہار  کھڑا ہے اُس کا بوجھ کم کیا جاسکتا ہے۔ بقول فیضؒ،ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے،وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے، جو لوحِ ازل میں لکھا ہے

Wednesday, 19 February 2025

چیئرمین نیب کے نام انسانی حقوق کے علمبردار کا کھلا خطOpen Letter to the Chairman of NAB from a Human Rights Advocate Sahibzada Mian Muhammad Ashraf Asmi Advocate

 چیئرمین نیب کے نام انسانی حقوق کے علمبردار کا کھلا خط

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

چیئرمین ہیومن رائٹس فرنٹ انٹرنیشنل


محترم جناب چیئرمین نیب، السلام علیکم!میں انتہائی تکلیف دہ جذبات کے ساتھ آپ کی خدمت میں ملتمس ہوں۔ جنابِ عالی، پاکستان میں اس وقت معاشی اور سماجی صورتحال کسی سے پوشیدہ نہیں۔ انصاف کے حصول کے لیے بھی لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

میں ایک ایسی بہن کی فریاد آپ کے حضور پیش کر رہا ہوں جس کا بھائی آپ ہی کے ادارے میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہے، لیکن اس کی بیوی فرح منگی ہر جرم کی اصل ماسٹر مائنڈ ہے۔ اس شخص نے اپنی بیوی فرح منگی کے اشاروں پر اپنی ماں اور بہن کے ساتھ بے رحمانہ دھوکہ کیا، مالی فراڈ کیا اور سنگین ناانصافی کی۔ ماں ایک اذیت ناک حالت میں دنیا سے رخصت ہوئیں، جبکہ عرفان منگی اور اس کی بیوی فرح منگی اپنی سازشوں میں مصروف رہے اور کراچی تدفین کے لیے تک نہ آئے۔جب بہن نے اپنے بھائی اور بھابھی کی دھوکہ دہی کے خلاف آواز بلند کی، تو فرح منگی نے اس کی زندگی کو مزید اجیرن بنا دیا اور اسے ہراساں کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس بہن نے اپنے تمام شواہد پہلے ہی بذریعہ کوریئر آپ کے دفتر بھجوا دیے ہیں۔ میں آپ سے دست بستہ التجا کرتا ہوں کہ اس بے بس بہن کی فریاد سنی جائے اور انصاف فراہم کیا جائے۔یہ معاشرے کی بے حسی کی انتہا ہے کہ ایک ماں کو ہی لوٹ لیا جائے، اسے زبردستی طاقتور نیند آور ادویات دی جائیں تاکہ اس کی دولت پر قبضہ کیا جا سکے۔ اس تمام ظالمانہ کھیل کی مرکزی کردار فرح منگی ہے، جس نے اپنے شوہر عرفان منگی کو ماں اور بہن کے خلاف استعمال کیا۔یہ المناک کہانی ریٹائرڈ ڈاکٹر کلثوم منگی کی ہے، جن کے ساتھ فرح منگی اور عرفان منگی نے ناقابلِ یقین ظلم کیا۔ ان کی پنشن اور بہبود سیونگ سرٹیفیکیٹس ان کے ذاتی اخراجات اور طبی ضروریات کے لیے تھے، مگر فرح منگی کے منصوبے کے تحت عرفان منگی نے ان کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ہر سال دو مرتبہ کراچی آکر، عرفان منگی اپنی ماں سے پانچ لاکھ روپے کے چیک حاصل کرکے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں جمع کروا لیتا تھا۔ 2013 میں، فرح منگی کے اکسانے پر اس نے اپنی والدہ کو پشاور لے جا کر بہبود سیونگ سرٹیفیکیٹس میں اپنا نام بھی شامل کروا لیا، جو اصل میں صرف کلثوم منگی کے نام پر تھے۔فرح منگی نے اپنے شوہر عرفان منگی کے ساتھ مل کر کلثوم منگی کو طاقتور نیند آور ادویات دے کر ان کی ذہنی حالت خراب کر دی، جس کے بعد یہ سرٹیفیکیٹس ایک مشترکہ اکاؤنٹ میں منتقل کروائے گئے۔ بعد میں، ماں کو آسٹریلیا بھیج دیا گیا، جہاں وہ مکمل طور پر تنہا تھیں، اور اس کے پیچھے بھی فرح منگی کی چالاکی شامل تھی۔عرفان منگی نے 2004 میں اپنی والدہ کے پنشن اکاؤنٹ میں اپنا نام شامل کروا لیا، حالانکہ یہ اکاؤنٹ صرف 60 سال سے زائد عمر کے افراد کے لیے مخصوص تھا۔ اس نے اپنے سرکاری اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر اسے اپنے قبضے میں کر لیا، اور یہ سب فرح منگی کے اشارے پر ہوا۔مزید برآں، فرح منگی نے اپنی ساس کو قائل کیا کہ تمام زیورات، نقدی، اور قیمتی اشیاء ایک مشترکہ لاکر میں رکھ دی جائیں۔ بعد میں، یہ تمام اشیاء فرح منگی اور عرفان منگی کے قبضے میں چلی گئیں، جن کی مالیت کروڑوں روپے تھی۔2024 میں جب کلثوم منگی کی طبیعت بگڑ گئی، تو انہیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا، مگر ان کے دونوں بیٹے عرفان منگی اور کامران منگی ان کی عیادت کے لیے نہ آئے۔ حد تو یہ ہے کہ والدہ کے انتقال کے بعد بھی دونوں بھائی تدفین میں شریک نہ ہوئے، جبکہ اس ظلم کی اصل ذمہ دار فرح منگی نے اس معاملے میں سب سے زیادہ منفی کردار ادا کیا۔یہاں ایک واحد فرد جس نے اپنی ماں کی آخری دنوں میں خدمت کی، وہ تھیں ان کی بیٹی، ڈاکٹر فوزیہ نعیم منگی۔ وہ خود بھی دو سال قبل ریٹائر ہو چکی ہیں۔ افسوس کہ اپنی ماں کی خدمت کرنے کے جرم میں فرح منگی نے اپنے شوہر عرفان منگی کو بہکایا کہ وہ اپنی بہن کے خلاف جھوٹے الزامات لگا کر اس کی کردار کشی کرے۔جب ڈاکٹر فوزیہ نعیم منگی کو اپنی ماں کے ساتھ ہونے والے مالی فراڈ کا علم ہوا تو انہوں نے عرفان منگی سے کہا کہ وہ ماں کی رقم واپس کرے، مگر فرح منگی نے عرفان منگی کو مزید بھڑکایا اور بہن کو بدنام کرنے کی سازشیں شروع کر دیں۔ڈاکٹر فوزیہ نعیم منگی نے انصاف کے حصول کے لیے چیئرمین نیب کو درخواست دی، لیکن چونکہ عرفان منگی نیب کے محکمے میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہے، اس لیے وہ اپنی بیوی فرح منگی کے اشاروں پر اپنی بہن کو ہراساں کر رہا ہے اور جھوٹے الزامات لگا کر اس کا وقار مجروح کر رہا ہے۔محترم چیئرمین نیب!میری آپ سے درد مندانہ درخواست ہے کہ اس بہن کی فریاد پر فوری توجہ دی جائے اور اس کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ازالہ کیا جائے۔ اس تمام جرم کی اصل ذمہ دار فرح منگی کو بھی کٹہرے میں لایا جائے، کیونکہ وہی اس مالیاتی بدعنوانی اور خاندانی تباہی کی اصل مجرم ہے۔آپ کے ادارے میں کام کرنے والے اس افسر اور اس کی بیوی کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، جنہوں نے اپنی ماں اور بہن کے ساتھ ظلم کیا۔والسلام،صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ،چیئرمین ہیومن رائٹس فرنٹ انٹرنیشنل                        


Open Letter to the Chairman of NAB from a Human Rights Advocate
Sahibzada Mian Muhammad Ashraf Asmi Advocate
Chairman, Human Rights Front International

Respected Chairman NAB, Assalamu Alaikum!

Today, with deep anguish and sorrow, I present this plea before you. The economic and social conditions in Pakistan are evident to all, and seeking justice has become an uphill struggle. I bring to your attention the plea of a sister whose brother holds a senior position in your esteemed institution. This individual has falsely accused his innocent and helpless sister, defrauded her, and even deceived their mother. The mother passed away in an extremely painful situation, and this man, who was in Islamabad at the time, did not even travel to Karachi for her burial. Instead, when the sister raised her voice against her brother’s fraud, he began harassing her. Below, I outline the full details of this distressing case.


I shudder to think what would happen if even the weak judicial system of this society were absent—elites would completely devour the common people. In a society where a 90-year-old mother is robbed, where she is given high-potency sedatives so that her wealth can be seized, one can do nothing but lament the insensitivity of such a community. The status of a mother in Islam and Islamic society is of the highest regard. The Quran and Sunnah have explicitly stated the greatness and rights of a mother. The Holy Quran emphasizes the importance of a mother’s rights:“And We have enjoined upon man [care] for his parents. His mother carried him, [increasing her] in weakness upon weakness, and his weaning is in two years.” (Surah Luqman: 14)This is the tragic story of a retired doctor, Kulsoom Mangi, whose treatment at the hands of her own sons exposes the insensitivity of our society. This story highlights the aspects of our social fabric filled with greed and callousness. Dr. Kulsoom Mangi’s pension and welfare savings certificates were meant for her personal expenses and medical needs. However, in her final days, she faced nothing but hardship. Her eldest son, Irfan Mangi, exploited her finances. Twice a year, he would visit Karachi and obtain checks worth 500,000 rupees from his mother, depositing them into his personal account.In 2013, Irfan Mangi took his mother to Peshawar and had his name added to her welfare savings certificates, which were originally solely in her name and held a total value of 7.5 million rupees, generating an annual profit of 1.2 million rupees. Irfan and his wife, Farah, manipulated Dr. Kulsoom by administering powerful sedatives, which impaired her mental state. This allowed them to transfer these certificates into a joint account. Later, Irfan sent his mother to Australia on a visa, where she lived in complete isolation. Upon her return, her mental state had deteriorated to the extent that she could not even recall the events that transpired in Peshawar.

In 2004, Irfan Mangi had his name included in his mother’s pension benefit account, which is exclusively meant for individuals over the age of 60. Shockingly, using his government influence, he managed to get this account under his name. Additionally, Irfan and his wife convinced Dr. Kulsoom to store all her jewelry, cash, and valuables in a joint locker. These assets, worth millions, were later seized by Irfan and Farah.

In 2024, when Dr. Kulsoom Mangi’s health deteriorated, she was admitted to the hospital, yet neither of her sons, Irfan or Kamran, showed any concern. Even after her passing, they did not attend her funeral, whereas NAB Karachi staff members were present.Amidst this harrowing tale, there is one individual who stood by Dr. Kulsoom Mangi until her last breath—her daughter, Dr. Fauzia Naeem Mangi, who herself retired two years ago. Ironically, for the mere act of taking care of her mother, Dr. Fauzia became the target of character assassination by her own brother, Irfan Naeem Mangi. Two months before their mother’s passing, Dr. Fauzia discovered the financial fraud committed by Irfan, Farah, and Kamran. When she confronted Irfan and demanded that he return the misappropriated funds to their mother, he instead launched a smear campaign against her.

Dr. Fauzia Naeem Mangi sought justice by filing a complaint with the Chairman of NAB. However, since Irfan Mangi holds a senior position in NAB, he is abusing his authority to harass and defame his own sister.

Islam holds sisters in high regard, emphasizing kindness, respect, and goodwill towards them. Treating one’s sister with love and honor is a sign of faith. The teachings of Islam advocate for maintaining good relations and fulfilling their needs.

A Heartfelt Appeal to the Chairman of NAB

I earnestly request that you pay heed to this sister’s plea. The officer under your supervision, who has committed grave injustices against his own mother and sister, must be held accountable. Justice must be served to the aggrieved sister, and necessary actions should be taken against the perpetrator.

Sincerely,
Sahibzada Mian Muhammad Ashraf Asmi Advocate
Chairman, Human Rights Front International


Tuesday, 18 February 2025

معروف قانون دان اور شاعر، علی احمد کیانی کی ماں بولی میں خو بصورت کتاب صحرا صحرا رلیاں اکھیں Ali Ahmad Kiyani AdvocateBook of Poetry

 معروف قانون دان اور شاعر، علی احمد کیانی کی ماں بولی میں خو بصورت کتاب صحرا صحرا رلیاں اکھیں 


صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ 

 معروف قانون دان اور شاعر، علی احمد کیانی کی ساتویں کتاب شائع ہو کر منظر عام پر آگئی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت سے ادبی دنیا میں جوش و خروش عروج پر ہے۔ ''صحرا صحرا رلیاں اکھیں '' کے عنوان سے یہ غزلیہ مجموعہ پہاڑی ادب میں ایک اہم اور خوب صورت اضافہ ہے۔ علی احمد کیانی، جو ادبی دنیا کی ایک ممتاز شخصیت ہیں، نے اردو اور پہاڑی دونوں زبانوں کی ترویج اور ترقی میں نہایت کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان کے متاثر کن شعری مجموعوں اور نثری نگارشات میں اردو کی تین کتابیں  ''آنچل کی ہوا دو'' ''محبت لازمی کرنا '' اور ''آقا تیری گلی میں '' شامل ہیں۔ جبکہ پہاڑی میں، انہوں نے چار کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں ''پیار نے دیوے بال ''، جو محبت اور رشتوں کی خوبصورت تصویر ہے۔ ''پھل تہ کلیاں '' جو فطرت کی خوبصورتی کی عکاس ہے اور ''رنگ پرنگے تہاگے '' جو طنز و مزاح سے بھرپور ہے، قابل ذکر ہیں اور اب، ''صحرا صحرا رلیاں اکھیں '' ایک شاہکار شعری مجموعہ ہے  جو ان کی منفرد اور معیاری شاعری کا ایک حسین گلدستہ ہے جس کی تازہ مہک قارئین کو مسحور کرے گی۔ایک خوبصورت پہاڑی زبان میں لکھی گئی شاعری کی کتاب کو دیکھتے ہوئے، یہ احساس ہوتا ہے کہ ماں بولی میں کی گئی شاعری اپنی ایک الگ تاثیر رکھتی ہے۔ اس حوالے سے مختلف زبانوں کے عظیم شعراء اور ماہرین نے  اپنے خیالات کا اظہا رخوبصور  ت انداز میں کیا ہے۔


پنجابی کے عظیم شعراء  اکرام،بلھے شاہ ؒ کے مطابق،''جیڑا اپنے گھر نوں وساری، اوہو جگ نوں کی وساوے۔'' (جو اپنی ماں بولی کو چھوڑ دے، وہ دنیا میں کہیں نہیں ٹھہر سکتا۔)اِسی طرح حضرت بابا وارث شاہ ؒ  کہتے ہیں ''جے عشق سچا ہووے، تے ہر زبان اچ سچ بولدا اے۔'' (اگر محبت حقیقی ہو تو ماں بولی میں کی گئی شاعری دل میں اتر جاتی ہے۔)

 عظیم روحانی شخصیت حضرت بابا فریدؒ کا کہنا ہے کہ ''بولیئے نیکا، جھک جھک بولیئے۔'' (ماں بولی میں الفاظ نرم ہوں تو اثر زیادہ ہوتا ہے۔) عظیم  پشتو شاعرخوشحال خان خٹکؒ کے خیال میں ''زبان دا راز اے، عشق دے ساز اے۔''(ماں بولی کا حسن اس میں چھپے جذبات سے ظاہر ہوتا ہے۔پنجاب بی عظیم صوفی شاعر جناب میاں محمد بخش ؒ کہتے ہیں کہ''ساہواں نوں کھلوتا رہن دے، پر ماں بولی نوں نہ بھلائیں۔''

(سانسیں چلتی رہیں یا نہ رہیں، مگر ماں بولی کو کبھی نہ چھوڑو۔

عربی زبان کے پا عظیم شعراء  اکرام  جن میں امرو القیس شامل ہیں  وہ کہتے ہیں  کہ''الشعر لسان القلب، فإن نطق بغیر لغتہ خسر جمالہ.'' (شاعری دل کی زبان ہے، اگر وہ اپنی اصل زبان میں نہ ہو تو اپنی خوبصورتی کھو دیتی ہے۔ جبکہ متنبی کہتے ہیں ''اللغۃ روح الأمۃ، وإن فقدت فقدت الأمۃ نفسہا.''(زبان قوم کی روح ہوتی ہے، اگر یہ ختم ہو جائے تو قوم خود کو کھو دیتی ہے۔احمد شوقیکے مطابق ''فی لغتنا کنوز لا یعرفہا إلا العاشقون.''(ہماری ماں بولی میں ایسے خزانے چھپے ہیں جنہیں صرف عشق کرنے والے جانتے ہیں۔ابو تمام کے مطابق ''الشعر ماء الحیاۃ، واللغۃ کأسہ.''(شاعری زندگی کا پانی ہے اور زبان اس کا جام ہے۔البحتری کے مطابق ''ما أجمل أن تغنی القوافی بلغۃ الأرض التی نشأت فیہا.'' (کتنا حسین ہے جب شعر اپنے ہی دیس کی زبان میں گایا جائے۔)

اِسی طرح فارسی زبان کے عظیم شعراء جن میں مولانا جلال الدین رومیشامل ہیں کہ مطابق ''ہر زبانی کہ از دل برخیزد، بر دل نشیند.''(جو زبان دل سے نکلتی ہے، وہی دل میں اترتی ہے۔)شیخ سعدی کے خیال میں 

''گفتار شیرین چون شہد، زبان مادری گوہر است.''(میٹھی زبان شہد کی مانند ہے اور ماں بولی ایک قیمتی گوہر ہے۔)حافظ شیرازی کہتے ہیں ''زبان مادر را رہا مکن کہ عشق در آن خانہ دارد.''(ماں بولی کو مت چھوڑو، اس میں محبت بسی ہوتی ہے۔)۔عمر خیام کہتے ہیں ''بہ زبان خود شعر گفتن، نزدیکترین راہ بہ حقیقت است.''اپنی زبان میں شاعری کرنا حقیقت کے قریب ترین راستہ ہے۔فردوسی کے مطابق''آن کہ زبان مادری را پاس ندارد، گویی خود را فراموش کردہ است.''(جو اپنی ماں بولی کی حفاظت نہ کرے، گویا وہ خود کو بھول چکا ہے۔

روسی زبان کے ماہریالیگزینڈر پوشکن کا کہنا ہے ''ماں بولی میں لکھی گئی شاعری دل کا آئینہ ہوتی ہے۔  لیو ٹالسٹائیکہتے ہیں 'اگر کسی قوم کو سمجھنا ہو تو اس کی شاعری کو پڑھو۔' اسِی طرحفیودور دستوئیفسکیکہتے ہیں کہ''شاعری زبان کو نہیں، جذبات کو بولتی ہے۔''انگلش زبان کے ماہر  ولیم شیکسپیئر کے مطابق ''الفاظ کی اصل طاقت ان کی ماں بولی میں پوشیدہ ہے۔'' اِسی طر ح  جان ملٹن  کہتا ہے کہ ''جو زبان تمہاری روح کو سکون دے، وہی اصل زبان ہے۔''اور رابرٹ فراسٹ کے مطابق ''میری بہترین شاعری میری ماں بولی میں ہے۔   ٹی ایس ایلیٹ کہتے ہیں: زبان صرف ذریعہ نہیں، بلکہ تخلیق کا جزو ہے۔

 شیلے کے مطابق: شاعری جب ماں بولی میں ہوتی ہے، تو خواب حقیقت بن جاتے ہیں۔فرانسیسی زبان کے ماہرین  وکتور ہیوگو کے مطابق: ماں بولی میں شاعری دل کی صدا ہے۔ چارلس بودلیئر کہتے ہیں: جو الفاظ دل سے نکلیں، وہی زبان کو امر کر دیتے ہیں۔ہسپانوی زبان کے ماہرین:ابن خلدون کے مطابق: زبان اور شاعری قوم کی پہچان ہیں۔ جبران خلیل جبران کہتے ہیں: جو بات ماں بولی میں کہی جائے، وہ سب سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔ فرید الدین عطار کے مطابق: زبان کا حسن شاعری میں پنہاں ہے۔ ابوالعلاء معری کہتے ہیں: شاعری وہی سچی ہوتی ہے جو اپنی اصل زبان میں ہو۔


دکھ تے غم وچ کھلیاں اکھیں 

رونا   کد  یو   پہلیاں  اکھیں 


کن  سا   اتھرو   کہسنے  والا 

اج وی راتیں  ڈھلیاں اکھیں 


ہک پاسے دی  ساری  دنیاں 

ہک  پاسے یو  کہلیاں  اکھیں 


ہک  لیلیٰ نے عشقے  وچ  یو 

صحرا  صحرا   رلیاں   اکھیں 


یار  علی  نانہہ   اچھی   بسیا 

رہیاں کہلیاں  ملیاں  اکھیں 

علی احمد کیانی کی شاعری اور نثر ایک عرصے سے قارئین کے دلوں پر راج کرتی چلی آ رہی ہے۔ انہوں نے ادب کے شائقین اور قارئین کے دلوں میں ایک خاص مقام حاصل کر رکھا ہے۔ ان کی خوب صورت اور فکر انگیز شاعری اعلی ادبی رویوں کی حامل ہے جو انہیں ادبی حلقوں میں ایک محبوب شخصیت بناتی ہے۔پہاڑی زبان و ادب سے محبت کرنے والوں کو ”صحرا صحرا رلیاں اکھیں“ کی اشاعت کا  بے صبری سے انتظار تھا۔ پہاڑی ادبی حلقے علی احمد کیانی سے ایک اور ادبی شاہکار کی توقع کر رہے تھے، جو اب صحرا صحرا رلیاں اکھیں کے روپ میں سامنے آیا۔امید واثق ہے کہ اس تازہ ترین کتاب سے پہاڑی زبان و ادب میں علی احمد کیانی ایک سرکردہ ادبی شخصیت کے  طور پر اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ ادب میں علی احمد کیانی کی شراکت کو بڑے پیمانے پر تسلیم کیا گیا ہے، اور انہیں اپنے کام کے لیے متعدد تعریفی اسناد اور ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔علی احمد کیانی ایڈووکیٹ کی پہاڑی زبان میں لکھی جانے والی کتب انڈس کلچرل فورم کے زیراہتمام منعقدہ مادری زبانوں کے ادبی میلے میں ہر باقاعدگی سے شامل کی جاتی ہیں جو بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔پہاڑی و ادب کے فروغ کے لیے ان کی لگن نے ادیبوں اور شاعروں کی نئی نسل کو متاثر کیا ہے، اور اس کا اثر بہت سے ابھرتے ہوئے لکھاریوں کے ادبی کے کام میں صاف دکھائی دیتا ہے۔ علی احمد کیانی بنیادی طور پر عزل کے شاعر ہیں۔ وہ غزل کی ایک مضبوط روایت کو لے کر چل رہے ہیں۔ وہ اردو کے ساتھ پہاڑی زبان میں بھی غزل لکھ رہے ہیں۔ ان کی نئی کتاب صحرا صحرا رلیاں اکھیں دراصل پہاڑی غزلوں کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب یقینی طور پر غزل کے قارئین کو متاثر کرے گی اور دیرپا تاثر چھوڑے گی۔ ادبی حلقوں کی جانب سے اس مجموعہ کا گرمجوشی سے خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔