شعبہ قانون سے منسلک نوجوان مصنف ، شاعر پوڈ کاسٹر صاحبزادہ حذیفہ اشرف عاصمی کا
سول سروس، طب ، ادب کی ہمہ جہت شخصیت ڈاکٹر حماد
احمد بھٹی کا منفرد اور بصیرت افروز انٹرویو

علمی اور فکری دنیا میں چند شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنے متنوع اور منفرد سفر کی بدولت نہ صرف خاص مقام حاصل کرتی ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی مشعل راہ کا کام دیتی ہیں۔ ڈاکٹر حماد احمد بھٹی ایسی ہی ایک شخصیت ہیں، جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنے ہنر اور جذبے سے ایک مثالی مقام حاصل کیا ہے۔ وہ نہ صرف ماہر امراضِ جلد (Dermatologist) ہیں بلکہ ایک سابق سی ایس پی افسر، محقق، شاعر، ادیب اور فکری رہنما بھی ہیں۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو ایک دوسرے سے مربوط ہے، اور یہی ان کی کامیابی کی وجہ بھی ہے کہ انہوں نے مختلف شعبوں کو یکجا کرتے ہوئے ایک بھرپور اور متحرک زندگی گزاری ہے۔ڈاکٹر حماد احمد بھٹی کی زندگی کا سفر روایتی راستوں سے ہٹ کر ایک منفرد داستان پیش کرتا ہے۔ ایک طرف وہ سفید کوٹ کی شان و شوکت میں محو نظر آتے ہیں تو دوسری طرف بیوروکریسی کی سخت اور منظم دنیا میں بھی ان کا لوہا مانا جاتا ہے۔ لیکن ان کی اصل پہچان ان کا ادبی اور تخلیقی رجحان ہے، جو انہیں عام سرکاری ملازمین سے ممتاز کرتا ہے۔ ادب اور تخلیق سے محبت ان کے خاندانی ماحول اور والدین کی تعلیم یافتہ شخصیت سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔ والد جنہوں نے تعلیم کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں اور والدہ جن کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر بنے، یہ تمام عوامل ڈاکٹر حماد کی زندگی کے اہم سنگ میل ثابت ہوئے۔ڈاکٹر حماد احمد بھٹی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے والدین کی خواہشات کو پورا کرنے کے بعد اپنی دل کی سن کر ادب، تحقیق اور طب کے میدان میں گہرا سفر شروع کیا۔ ان کا یہ فلسفہ کہ علم اور تخلیق انسان کی زندگی کا حقیقی سرمایہ ہیں، انہیں ہر میدان میں کامیابی کی جانب لے گیا۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ علم بانٹنے اور خیر پھیلانے کے مشن پر گامزن ہیں۔ڈاکٹر حماد کی شخصیت کا ایک اور اہم پہلو ان کی بچپن سے جڑی تخلیقی سرگرمیاں ہیں۔ انہوں نے اسکول کی سطح پر سکاؤٹنگ، ڈیبیٹس، شاعری اور کھیلوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔ والد کا قول کہ "تعلیم کی قیمت پر کوئی سرگرمی نہیں روکی جائے گی"، ان کی شخصیت کی تشکیل میں اہم ثابت ہوا۔ وہ خود بھی مختلف کھیلوں میں قائدانہ کردار میں رہے اور لکھنے، بولنے اور تخلیق کرنے کا شوق ان کے اندر پلتا رہا۔ان کی ادبی خدمات کی بات کی جائے تو ان کی مختلف کتابیں اور شاعری ان کے گہرے فکری و روحانی رُخ کی عکاس ہیں۔ ان کی حالیہ کتاب "بارش، کھڑکی، پھول اور چائے" ایک ایسے سفر کی عکاسی کرتی ہے جو تنہائی سے محفل تک پہنچاتا ہے، اور جس میں ادب ایک ہمسفر کی مانند ہے۔ ان کی شاعری خاص طور پر غزل کی صنف میں مہارت رکھتی ہے، جسے وہ جیولری بنانے کے فن کی مانند ناز و نخرے سے تخلیق کرتے ہیں۔ڈاکٹر حماد احمد بھٹی کا ادبی سفر پنجابی زبان کی خدمت سے بھی عبارت ہے، جہاں انہوں نے پنجابی میں شعری مجموعہ "ساوے رکھ" کے ذریعے اپنی ماں بولی کو ادب کا حصہ بنایا۔ ان کی دیگر کتابیں جیسے"
تمھارے مسکرانے سے" اور "مجھے تم یاد آتے ہو" بھی ان کے جذبات اور فکری سوچ کی عمدہ ترجمانی کرتی ہیں۔علاوہ ازیں، ان کا بیرون ملک سفر اور وہاں کے تجربات بھی ان کی فکری وسعت اور ادبی افق کو وسیع کرنے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ امریکہ کے مختلف شہروں میں گزارا گیا وقت اور امریکی عدالتی نظام کا مشاہدہ، ان کے علمی اور ادبی ذخیرے میں ایک نیا باب کھولا۔ڈاکٹر حماد احمد بھٹی کی زندگی کی کہانی صرف ایک کامیاب ڈاکٹر یا ایک بہترین افسر کی داستان نہیں، بلکہ یہ ایک ایسے انسان کی کہانی ہے جس نے علم، محبت، ادب اور تخلیق کو اپنی زندگی کا فلسفہ بنا لیا۔ ان کی شخصیت کا جوہر یہ ہے کہ انہوں نے ہر منصب، ہر وقار، ہر اختیار سے بڑھ کر اندر کی روشنی کو اہمیت دی، اور اسی روشنی سے انہوں نے اپنے فکری و ادبی سفر کو زندہ رکھا۔یہ تفصیلی نشست ڈاکٹر حماد احمد بھٹی کی زندگی کے ان رنگین اور کثیرالجہتی پہلوؤں کو سامنے لانے کی کوشش ہے، جہاں انہوں نے سفید کوٹ سے ادبی سنگھاسن تک کا جو سفر طے کیا، وہ نہ صرف متاثر کن ہے بلکہ ان کے لیے ایک مشعل راہ بھی ہے جو بتاتی ہے کہ محنت، جذبہ اور تخلیق کی روشنی میں انسان اپنی حدود کو کیسے توڑ سکتا ہے۔شارجہ کی علمی و فکری فضا میں ایک منفرد اور باوقار نام، ڈاکٹر حماد احمد بھٹی ایک ایسا نام جو بیک وقت میڈیسن، بیوروکریسی، ادب، تحقیق اور فکری جہانوں کا مسافر رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک ماہر امراضِ جلد (Dermatologist) ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سابق سی ایس پی آفیسر بھی رہے ہیں۔ لیکن جو چیز انہیں منفرد بناتی ہے وہ ان کی تخلیقی، ادبی اور فکری وابستگی ہے، جو بظاہر سخت نظم و ضبط والے شعبوں سے تعلق رکھنے والے فرد میں کم ہی دکھائی دیتی ہے۔اس نشست کا آغاز میں نے ایک سادہ سوال سے کیا، لیکن جیسے جیسے گفتگو آگے بڑھتی گئی، ایک ایک پرت کھلتی گئی۔"ڈاکٹر صاحب، ایک سی ایس پی آفیسر ہوتے ہوئے میڈیکل، ادب اور تخلیق کی طرف رجحان کیسے پیدا ہوا؟ اور اس تخلیقی و تعلیمی سفر کا آغاز کہاں سے ہوا؟"ڈاکٹرصاحب نے کہا اگر ہم یہ بات کریں کہ سی
ایس پی آفیسر، پھر میڈیسن، اور ساتھ میں رائٹنگ تو یہ ساری چیزیں، میرا ماننا ہے، تخلیق سے جُڑی ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو تخلیق کیا، اور فرمایا کہ ‘میں نے آدم کو پیدا کیا، پھر اسے تمام علم سکھائے’۔ تو اگر ہم کھلے دل و دماغ سے سیکھنے اور ماننے کو تیار ہوں تو راستے خود کھلتے چلے جاتے ہیں۔"ڈاکٹر حماد کا کہنا تھا کہ ان کے والد، جو ایک تعلیم یافتہ اور تعلیمی شعبے سے وابستہ شخصیت تھے، ان کی زندگی میں بنیادی کردار رکھتے ہیں۔ وہ ڈائریکٹر ایجوکیشن کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ والد کی خواہشات، خواب اور ان کا خاندانی پس منظر ہی وہ عوامل تھے جنہوں نے ڈاکٹر حماد کو تخلیق اور تحقیق کی راہوں پر گامزن کیا۔"میرے والد چاہتے تھے کہ جو خواب وہ خود نہ دیکھ سکے، ہم ان خوابوں کو پورا کریں۔ اور میری والدہ کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں، سو میں نے سب سے پہلے ان کی خواہش پوری کی۔ پھر والد صاحب کی خواہش پر سی ایس پی جوائن کیا۔ اور جب یہ دونوں خواہشیں پوری ہو گئیں، تو پھر میں نے دل کی سنی، اور ادب، تحقیق اور طب کے راستے کو اپنی زندگی کا مشن بنایا۔"ڈاکٹر صاحب مزید بتاتے ہیں:"تو ایک وقت آیا کہ میں نے وائٹ کوٹ (ڈاکٹر کا روپ) اتارا اور کوٹ پینٹ (سی ایس پی آفیسر) پہنی، پھر دوبارہ اتاری اور دوبارہ وائٹ کوٹ پہن لیا۔ اور الحمدللہ، آج بھی اسی راستے پر ہوں، علم بانٹنے اور خیر پھیلانے کے راستے پر۔"سکاؤٹنگ سے لیکر تخلیقی سرگرمیوں تک ہم نے سکاؤٹنگ، ڈیبیٹس، اور سکول لائف میں تخلیقی سرگرمیوں پر بات کی تو ڈاکٹر صاحب نے نہایت محبت سے اپنے بچپن اور والد صاحب کا ذکر کیا:"میرے والد جب سکول کے پرنسپل تھے تو وہ طلبا کو ہمیشہ مختلف سرگرمیوں میں شامل کرتے۔ جب والدین ہچکچاتے کہ بچوں کی پڑھائی کا کیا ہوگا، تو والد صاحب کہا کرتے کہ ’سب سے پہلے میرا بچہ جائے گا، پھر باقی جائیں گے، لیکن یہ سب تعلیم کی قیمت پر نہیں ہوگا‘۔"وہ بتاتے ہیں کہ وہ اسکول میں سکاؤٹنگ، ڈیبیٹس، رائٹنگ، پوئٹری، یہاں تک کہ سکول بینڈ کے منیجر بھی رہے۔"ہاکی، کرکٹ، فٹبال تینوں ٹیمز میں تھا۔ اور ہر ایک میں لیڈ کرتا رہا۔ میرا ماننا ہے کہ اگر آپ خیر بانٹتے ہیں، تو خیر آپ کے پاس لوٹ کر آتی ہے۔ یہی کارماہے۔"ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ان کے والد ان کے لیے تقریریں لکھتے تھے، اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ والد صاحب نے کہا:"بیٹا، مجھے فلاں فنکشن میں جانا ہے، کچھ لکھ کے دے دو"۔اب وہ والد کے لیے لکھنے لگے۔ وہ لمحہ ان کی زندگی کے اہم موڑوں میں سے تھا۔کتابیں، خیالات اور شاعری کا سفرمیں نے ڈاکٹر صاحب کی حالیہ کتاب "بارش، کھڑکی، پھول اور چائے" کا ذکر چھیڑا، تو وہ کچھ دیر خاموش رہے، جیسے کسی یاد کے گہرے سمندر میں اتر گئے ہوں۔"یہ کتاب بس یوں سمجھیے کہ تنہائی سے محفل کی طرف ایک سفر ہے۔ آپ کھڑکی کے پاس بیٹھے ہوں، باہر بارش ہو رہی ہو، پاس پھول ہوں، ایک کپ چائے ہو اگر ایک ہمسفر ساتھ ہے تو بہت خوب، اور اگر نہیں بھی ہے، تو ایک اچھی کتاب ہی کافی ہے۔"ان کی باتیں گویا ادب کے ساتھ روحانی تعلق کا پتا دیتی ہیں۔"جب مجھ سے پوچھا گیا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی کیسے گزارنا چاہتے ہو؟ تو میں نے کہا: بارش، کھڑکی، پھول اور چائے بس یہی میرا کائنات ہے۔"اس کتاب میں صرف غزلیں شامل ہیں، اور ان کے مطابق غزل شاعری کی سب سے میچور صنف ہے۔"غزل لکھنا ایسے ہے جیسے جیولری بنانا ایک ایک حرف، ایک ایک بحر اور وزن پر باریکی سے کام کرنا پڑتا ہے۔"وہ بتاتے ہیں کہ ان کی خوش نصیبی ہے کہ انہیں عباس تابش، خورشید فاق، خالدندیم شانی اور احمد سعید جیسے شعرا ء کا ساتھ میسر آیا، جنہوں نے ان کی شاعری کو جِلا بخشی۔
اس سے پہلے میری پنجابی کتاب ساوے رکھ آئی، جس میں پنجابی نظمیں اور غزلیں شامل تھیں۔ ساوے رکھ یعنی ہری بھری شاخیں۔ پنجابی ہماری ماں بولی ہے، لیکن اسے لکھنا، پڑھنا آسان نہیں۔ سی ایس ایس میں جب پنجابی کو آپشنل سبجیکٹ رکھا تو وہاں سے لکھنے کا حوصلہ پیدا ہوا۔""اس سے پہلےتمہارے مسکرانے سے آئی، جس میں خوشی، وصل، امید اور محبت شامل تھی کبھی مایوسی نہیں۔ اور سب سے پہلی کتاب تھی مجھے تم یاد آتے ہو، جو آزاد نظمیں تھیں۔ وہ میرے طالب علمی کے دور کی یادگار ہے، اور اس میں ریاض مجید صاحب کا بہت کردار رہا۔ایک سفر نامہ بھی لکھا۔ یہ اس وقت لکھا جب میں امریکہ گیا تھا، امریکی عدالتوں کا مشاہدہ کرنے کے لیے۔ وہاں کے کلچر، ماحول، لوگوں سے جو کچھ سیکھا، وہ نہ صرف زندگی کے لیے بلکہ ادب کے لیے بھی خزانہ بن گیا۔"انہوں نے ایک دلچسپ بات بتائی:"جب میں نارتھ کیرولائنا میں رہا اور ڈیڑھ مہینے بعد نیویارک گیا، تو وہاں کے دوستوں نے کہا: ‘بھٹی صاحب، آپ اب امریکہ آئے ہیں یہ ہے اصلی امریکہ!
ڈاکٹر حماد احمد بھٹی کی گفتگو نہ صرف معلوماتی تھی بلکہ روحانی اور فکری سطح پر بھی ایک تجربہ تھی۔ ان کی زندگی کئ جہات ڈاکٹر، سی ایس پی آفیسر، شاعر، ادیب، محقق سب ایک دوسرے میں یوں پیوست ہیں کہ ایک مکمل شخصیت تشکیل پاتی ہے۔ان کے اشعار ان کی شخصیت کا عکس ہیں
میرے ہی نام چاہتوں کا ہر نصاب کر دیا
تیرے کرم نے مجھ کو صاحبِ کتاب
کر دیاتمہاری دوستی سے پہلے کافی پارسا تھے ہم
مگر تمہاری بزم نے ہمیں خراب کر دیا
ڈاکٹر صاحب کی یہ زندگی ایک پیغام ہےعلم، محبت، ادب اور تخلیق وہ خزانے ہیں جو دل میں اتر
جائیں، تو پھر منصب، اختیار، پروٹوکول سب پیچھے رہ جاتے ہیں باقی رہ جاتی ہے تو بس ایک "اندر کی روشنی"۔
ڈاکٹر حماد احمد بھٹی کی زندگی کا سفر ایک منفرد اور رنگین داستان ہے، جو ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ محنت، جذبہ، اور تخلیق کی روشنی میں انسان اپنی حدود کو پار کر سکتا ہے۔ وہ صرف ایک ماہر امراضِ جلد یا سابق سی ایس پی افسر نہیں بلکہ ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی علمی، فکری، اور ادبی صلاحیتوں کو یکجا کر کے ایک مکمل انسان کی مثال قائم کی ہے۔ ان کی زندگی کے ہر پہلو میں علم و ادب کی روشنی جھلکتی ہے اور یہی ان کی سب سے بڑی پہچان ہے۔ڈاکٹر حماد کی کہانی ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ والدین کی خواہشات اور اپنے دل کی سن کر اپنی منزل تک پہنچنا ممکن ہے۔ انہوں نے اپنے والدین کے خوابوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی دلچسپیوں کو بھی پروان چڑھایا، جو ان کی کامیابی کی بنیاد بنی۔ ان کی تخلیقی سرگرمیاں، شاعری، اور تحقیق اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسان میں پوشیدہ صلاحیتیں کتنی بھی مختلف ہوں، انہیں ایک ساتھ لے کر چلنا ممکن ہے۔ادب، تحقیق، اور طب کے میدان میں ان کا سفر اس بات کی علامت ہے کہ زندگی کی راہیں جتنی بھی مختلف کیوں نہ ہوں، اگر مقصد بلند اور خلوص دل سے ہو تو کامیابی یقینی ہے۔ ڈاکٹر حماد احمد بھٹی کی زندگی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ علم، محبت، اور تخلیق کو اپنی زندگی کا حصہ بنا کر ہم نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی مشعل راہ بن سکتے ہیں۔آخر میں، ڈاکٹر حماد کی شخصیت میں ایک اندرونی روشنی اور جذبہ موجود ہے جو ہر مقام اور منصب سے بڑھ کر ان کی اصل طاقت ہے۔ یہی روشنی انہیں ایک حقیقی فکری رہنما بناتی ہے، جو اپنی تحریر، شاعری اور علمی خدمات کے ذریعے معاشرے میں علم و شعور کی روشنی پھیلاتے رہتے ہیں۔ ان کی یہ زندگی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ حقیقی کامیابی صرف اختیار و منصب میں نہیں، بلکہ انسان کے دل اور دماغ کی روشنی میں ہوتی ہے۔
3 جون بروز منگل مجلس ترقی ادب کی جانب سے ڈاکٹر حماد احمد بھٹی کی کتاب"ارش، کھڑکی، پھول اور چائے" کی تقریبِ پزیرائی اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ کتاب اور مصنف کی شخصیت پر اظہارِ خیال کرنے والوں میں عباس تابش، صوفیہ بیدار، اکرام عارفی، رحمان فارس، ایڈوکیٹ میاں محمد اشرف عاصمی،پیرزادہ میاں عمر اشرف عاصمی،صاحبزادہ حذیفہ اشرف عاصمی، ڈاکٹر محمد انور گوندل اور خالد ندیم شانی شامل تھے۔ مشاعرے کی صدارت عباس تابش صاحب نے فرمائی جبکہ دیگر شعرا کرام میں صاحبِ شام ڈاکٹر حماد احمد بھٹی، صوفیہ بیدار، ڈکٹر سہیل انور، راغب تحسین، اکرام عارفی، راول حسین، زنیر نقوی اور خرم آفاق شامل تھے۔ نظامت کے فرائض خالد ندیم شانی نے سر انجام دیے۔
انکی کتاب "بارش کھڑکی پھول اور چائے" سے انکی یہ غزل دیکھئے۔
بارش ، کھڑ کی ، پھول اور چائے
مجھ کو تیری یاد ستائے
لگتی ہے وہ چاند کی جیسی
ہاتھوں پر ٹھوڑی کو سجائے
چائے میں تصویر تمہاری
پیالی میں طوفان اٹھائے
نئی بہار نے پھول گلابی
اس کے جوڑے میں پہنائے
بیٹھی ہے وہ گم صم کب سے
اور لیوں سے کچھ نہ بتائے
ہجر کی دھوپ میں اس کی چھاؤں
چلتا ہوں میں سائے سائے
اس کے باغ سے آتا جھونکا
رقص درختوں کو سکھلائے
وہ شیشے کی دھند پہ حماد
میرا نام ہی لکھتی جائے










