Saturday, 23 November 2024

Order 111 Civil Procedure Code 1908 .Can a suit reject because off defect in power of attorney

 آرڈر III سول پروسیجر کوڈ  1908  فریق کا ذاتی طور پر، تسلیم شدہ ایجنٹ، یا وکیل کے ذریعے پیش ہونا

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی  ایڈووکیٹآرڈر III سول پروسیجر کوڈ  1908  فریق کا ذاتی طور پر، تسلیم شدہ ایجنٹ، یا وکیل کے ذریعے پیش ہونا

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی  ایڈووکیٹ

سول پروسیجر کوڈ 1908 کا آرڈر III دیوانی مقدمات میں فریقین کو عدالت میں نمائندگی کے لیے تسلیم شدہ ایجنٹ یا وکیل کے ذریعے پیش ہونے کا ایک جامع طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔ یہ آرڈر ان فریقین کو مدد فراہم کرتا ہے جو ذاتی طور پر عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے، اور ان کے لیے منصفانہ طریقے سے نمائندگی کو ممکن بناتا ہے۔ ذیل میں آرڈر III کے ہر قاعدے کی تفصیل اور پاکستانی سپریم کورٹ کے اہم فیصلے دیے گئے ہیں:

قاعدہ 1: فریق ذاتی طور پر، تسلیم شدہ ایجنٹ، یا وکیل کے ذریعے پیش ہو سکتا ہے:یہ قاعدہ واضح کرتا ہے کہ:کوئی بھی فریق عدالت میں مقدمہ لڑنے کے لیے درج ذیل طریقوں میں سے کسی ایک کو اختیار کر سکتا ہے:عدالت  میں ذاتی طور پر پیش ہو۔ تسلیم  شدہ  ایجنٹ کے ذریعے نمائندگی کرے (جیسے کہ پاور آف اٹارنی رکھنے والا فرد)۔ وکیل (لائسنس یافتہ قانونی نمائندہ) کے ذریعے عدالت میں پیش ہو۔عدالت کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ فریق کی ذاتی حاضری کو ضروری قرار دے، خاص طور پر اگر عدالت سمجھے کہ مقدمے کے حقائق کو واضح کرنے کے لیے فریق کی موجودگی لازمی ہے۔                                                                                                               

عدالتی تشریح:فیصلہ علی محمد بمقابلہ محمد علی (PLD 1970 SC 323) میں سپریم کورٹ نے یہ اصول قائم کیا کہ فریق کی ذاتی حاضری صرف اس وقت لازمی قرار دی جا سکتی ہے جب عدالت یہ محسوس کرے کہ حقائق کو واضح کرنے کے لیے فریق کی موجودگی ضروری ہے اور یہ کام ایجنٹ یا وکیل کے ذریعے ممکن نہیں۔ اس فیصلے میں عدالت کی صوابدید کے اختیار پر زور دیا گیا جو کہ قاعدہ 1 کے تحت دی گئی ہے۔                                                                    

قاعدہ 2: تسلیم شدہ ایجنٹ:یہ قاعدہ تسلیم شدہ ایجنٹ کی تعریف فراہم کرتا ہے۔ درج ذیل افراد تسلیم شدہ ایجنٹ ہو سکتے ہیں:پاور آف اٹارنی رکھنے والے افراد: ایسے افراد جو ایک جائز اور قانونی پاور آف اٹارنی رکھتے ہوں جو انہیں فریق کی طرف سے تمام کارروائیاں کرنے کا اختیار دیتا ہو۔تجارت یا کاروبار کرنے والے افراد: ایسے ایجنٹ جو غیر مقامی فریق کی طرف سے اس کے نام پر تجارت یا کاروبار کرتے ہوں، بشرطیکہ ان کی کارروائیاں صرف اس تجارت یا کاروبار سے متعلق ہوں۔                                                                                                                                  

عدالتی تشریح:فیصلہ مسرت فریدہ خانم بمقابلہ حکومت پنجاب (2020 SCMR 1550) میں سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا کہ تسلیم شدہ ایجنٹ کے طور پر کارروائی کے لیے پاور آف اٹارنی کا ہونا لازمی ہے۔ عدالت نے یہ بھی وضاحت کی کہ اگر پاور آف اٹارنی غیر قانونی یا غیر مکمل ہو تو ایسی نمائندگی غیر مجاز سمجھی جائے گی۔ مزید برآں، بیرون ملک جاری شدہ پاور آف اٹارنی کو قانونی تقاضوں کے مطابق تصدیق شدہ ہونا چاہیے۔

قاعدہ 3: تسلیم شدہ ایجنٹ کو عدالتی نوٹس کی ترسیل:یہ قاعدہ درج ذیل باتیں بیان کرتا ہے:اگر کسی تسلیم شدہ ایجنٹ کو عدالتی نوٹس یا کوئی قانونی عمل بھیجا جائے، تو اسے ایسا ہی تصور کیا جائے گا جیسے کہ وہ براہِ راست فریق کو پہنچایا گیا ہو۔یہ قاعدہ ان تمام تسلیم شدہ ایجنٹس پر لاگو ہوتا ہے جو قاعدہ 2 کے تحت آتے ہیں۔                                                تشریح:فیصلہ نثار احمد بنام محمد امین (PLD 2011 SC 446) میں سپریم کورٹ نے یہ اصول واضح کیا کہ تسلیم شدہ ایجنٹ کو نوٹس کی ترسیل کی قانونی حیثیت کا انحصار اس ایجنٹ کی درست تعیناتی پر ہے۔ اگر ایجنٹ کو مناسب طریقے سے مجاز نہ بنایا گیا ہو تو نوٹس کی ترسیل غیر موثر سمجھی جائے گی۔ عدالت نے مزید کہا کہ قاعدہ 3 کا مقصد عدالتی کارروائی کو آسان بنانا ہے، بشرطیکہ ایجنٹ کی تعیناتی قانونی ہو۔                                                                     

سپریم کورٹ آف پاکستان کے قائم کردہ اہم اصول:اجازت نامہ لازمی ہے: سپریم کورٹ نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ تسلیم شدہ ایجنٹ یا وکیل کا اختیار قانونی طور پر جائز اور دستاویزی ہونا چاہیے۔ذاتی حاضری کا عدالت کا اختیار: عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ قاعدہ 1 کے تحت ضروری سمجھنے پر فریق کی ذاتی حاضری کا مطالبہ کر سکتی ہے۔نوٹس کی ترسیل: سپریم کورٹ نے اس بات کی توثیق کی کہ تسلیم شدہ ایجنٹ کو نوٹس کی ترسیل فریق کے لیے موثر اور لازم تصور کی جائے گی، بشرطیکہ ایجنٹ کی تعیناتی قانونی ہو۔                                                                                                      

عملی اہمیت :  نمائندگی میں آسانی: ایسے فریقین جو عدالت میں پیش ہونے سے قاصر ہیں، وہ تسلیم شدہ ایجنٹ یا وکیل کو اپنی طرف سے کارروائی کے لیے مجاز بنا سکتے ہیں، جس سے انصاف تک رسائی ممکن ہوتی ہے۔پاور آف اٹارنی کی اہمیت: پاور آف اٹارنی کو قانونی طریقے سے تیار اور تصدیق شدہ ہونا چاہیے تاکہ ایجنٹ مؤثر نمائندگی کر سکے۔نوٹس کی ترسیل میں آسانی: قاعدہ 3 عدالتی کارروائیوں کو موثر بناتا ہے کیونکہ تسلیم شدہ ایجنٹس کے ذریعے نوٹسز اور قانونی احکامات کی ترسیل آسان ہو جاتی ہے۔

عدالت کسی دعویٰ کو صرف پاور آف اٹارنی میں کسی خرابی کی بنیاد پر مسترد نہیں کر سکتی: کسی دعویٰ کو صرف پاور آف اٹارنی میں کسی خرابی کی بنیاد پر مسترد نہیں کر سکتی۔ پاور آف اٹارنی میں خامیاں ایک عملی معاملہ ہیں اور یہ مقدمے کے قابل سماعت ہونے کی بنیادی حیثیت کو متاثر نہیں کرتیں۔ دعویٰ کو مسترد کرنے کا معاملہ سی پی سی 1908 کے آرڈر VII رول 11 کے تحت طے کیا جاتا ہے، جو دعویٰ مسترد کرنے کی مخصوص وجوہات بتاتا ہے، جیسے عدالت کی دائرہ اختیار کی کمی، دعویٰ کے لیے وجہ ظاہر نہ کرنا، یا دعویٰ قانون کی نظر میں ناقابل قبول ہونا۔ پاور آف اٹارنی میں کسی خرابی کو ان وجوہات میں شامل نہیں کیا گیا۔

پاکستانی عدالتی تشریح:پاکستان کی عدالتوں نے یہ وضاحت کی ہے کہ پاور آف اٹارنی میں موجود خامیوں کو درست کیا جا سکتا ہے، اور ایسی خامیاں فریقین کے بنیادی حقوق پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔ دعویٰ مسترد کرنے کے بجائے عدالت مندرجہ ذیل اقدامات کر سکتی ہے:

خرابی کو درست کرنے کی اجازت دینا:

عدالت فریق کو ایک درست پاور آف اٹارنی جمع کرانے یا موجودہ خامیوں کو دور کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔

پاور آف اٹارنی کے بغیر کارروائی کرنا:بعض صورتوں میں، عدالت مدعی (پاور آف اٹارنی جاری کرنے والے فریق) کو ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر وکیل یا ایجنٹ کی کارروائیوں کی تصدیق کی اجازت دے سکتی ہے۔

متعلقہ عدالتی نظیریں:محمد یار بنام  محمد امین (2008 SCMR 222):سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ پاور آف اٹارنی میں موجود عمل کی خامیاں دعویٰ کو ناقابل قبول نہیں بناتیں۔ عدالت نے زور دیا کہ عملی خامیوں کی بنیاد پر انصاف کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔

مسرت غلام کبریٰ بنام  حکومت سندھ (PLD 1996 کراچی 401):اس مقدمے میں عدالت نے کہا کہ اگر پاور آف اٹارنی میں کوئی خرابی ہو، تو عدالت کو متعلقہ فریق کو موقع دینا چاہیے کہ وہ خامیوں کو درست کرے یا ذاتی حیثیت میں پیش ہو۔ ایک خراب پاور آف اٹارنی دعویٰ کو مسترد کرنے یا مقدمہ ختم کرنے کی بنیاد نہیں بن سکتی۔

عبدالوحید بنام محمد شفیع (PLD 2011 لاہور 310):لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ پاور آف اٹارنی میں معمولی تکنیکی خامیاں دعویٰ کو ختم کرنے کا جواز فراہم نہیں کرتیں۔ عدالت کو مقدمے کی میرٹ پر توجہ دینی چاہیے نہ کہ عملی بے قاعدگیوں پر۔

قانونی اصول:پاور آف اٹارنی میں خامیاں قابل اصلاح ہیں:عدالت پاور آف اٹارنی میں موجود خامیوں کو درست کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔

دعویٰ کو مسترد کرنے کا معیار:دعویٰ کو مسترد کرنا ایک اہم معاملہ ہے اور یہ صرف ان مخصوص وجوہات کی بنا پر کیا جا سکتا ہے جو آرڈر VII رول 11 سی پی سی میں بیان کی گئی ہیں۔ پاور آف اٹارنی میں موجود عملی مسائل ان وجوہات میں شامل نہیں ہیں۔

عملی طریقہ کار:اگر کسی پاور آف اٹارنی میں کوئی خامی ہو تو:مخالف فریق اعتراض اٹھا سکتا ہے۔عدالت خامی کو دور کرنے کے لیے ہدایات جاری کر سکتی ہے۔عدالت پہلے سے کی گئی کارروائی کو درست قرار دے سکتی ہے، بشرطیکہ متعلقہ فریق تصدیق کرے۔پاور آف اٹارنی میں کسی خرابی کی بنیاد پر دعویٰ مسترد نہیں کیا جا سکتا، لیکن عدالت عمل کو درست کرنے کے لیے مناسب ہدایات دے سکتی ہے۔ ایسے معاملات میں عدالت کا مقصد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا اور غیر ضروری رکاوٹوں سے بچنا ہوتا ہے



سول پروسیجر کوڈ 1908 کا آرڈر III دیوانی مقدمات میں فریقین کو عدالت میں نمائندگی کے لیے تسلیم شدہ ایجنٹ یا وکیل کے ذریعے پیش ہونے کا ایک جامع طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔ یہ آرڈر ان فریقین کو مدد فراہم کرتا ہے جو ذاتی طور پر عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے، اور ان کے لیے منصفانہ طریقے سے نمائندگی کو ممکن بناتا ہے۔ ذیل میں آرڈر III کے ہر قاعدے کی تفصیل اور پاکستانی سپریم کورٹ کے اہم فیصلے دیے گئے ہیں:

قاعدہ 1: فریق ذاتی طور پر، تسلیم شدہ ایجنٹ، یا وکیل کے ذریعے پیش ہو سکتا ہے:یہ قاعدہ واضح کرتا ہے کہ:کوئی بھی فریق عدالت میں مقدمہ لڑنے کے لیے درج ذیل طریقوں میں سے کسی ایک کو اختیار کر سکتا ہے:عدالت  میں ذاتی طور پر پیش ہو۔ تسلیم  شدہ  ایجنٹ کے ذریعے نمائندگی کرے (جیسے کہ پاور آف اٹارنی رکھنے والا فرد)۔ وکیل (لائسنس یافتہ قانونی نمائندہ) کے ذریعے عدالت میں پیش ہو۔عدالت کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ فریق کی ذاتی حاضری کو ضروری قرار دے، خاص طور پر اگر عدالت سمجھے کہ مقدمے کے حقائق کو واضح کرنے کے لیے فریق کی موجودگی لازمی ہے۔                                                                                                               

عدالتی تشریح:فیصلہ علی محمد بمقابلہ محمد علی (PLD 1970 SC 323) میں سپریم کورٹ نے یہ اصول قائم کیا کہ فریق کی ذاتی حاضری صرف اس وقت لازمی قرار دی جا سکتی ہے جب عدالت یہ محسوس کرے کہ حقائق کو واضح کرنے کے لیے فریق کی موجودگی ضروری ہے اور یہ کام ایجنٹ یا وکیل کے ذریعے ممکن نہیں۔ اس فیصلے میں عدالت کی صوابدید کے اختیار پر زور دیا گیا جو کہ قاعدہ 1 کے تحت دی گئی ہے۔                                                                    

قاعدہ 2: تسلیم شدہ ایجنٹ:یہ قاعدہ تسلیم شدہ ایجنٹ کی تعریف فراہم کرتا ہے۔ درج ذیل افراد تسلیم شدہ ایجنٹ ہو سکتے ہیں:پاور آف اٹارنی رکھنے والے افراد: ایسے افراد جو ایک جائز اور قانونی پاور آف اٹارنی رکھتے ہوں جو انہیں فریق کی طرف سے تمام کارروائیاں کرنے کا اختیار دیتا ہو۔تجارت یا کاروبار کرنے والے افراد: ایسے ایجنٹ جو غیر مقامی فریق کی طرف سے اس کے نام پر تجارت یا کاروبار کرتے ہوں، بشرطیکہ ان کی کارروائیاں صرف اس تجارت یا کاروبار سے متعلق ہوں۔                                                                                                                                  

عدالتی تشریح:فیصلہ مسرت فریدہ خانم بمقابلہ حکومت پنجاب (2020 SCMR 1550) میں سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا کہ تسلیم شدہ ایجنٹ کے طور پر کارروائی کے لیے پاور آف اٹارنی کا ہونا لازمی ہے۔ عدالت نے یہ بھی وضاحت کی کہ اگر پاور آف اٹارنی غیر قانونی یا غیر مکمل ہو تو ایسی نمائندگی غیر مجاز سمجھی جائے گی۔ مزید برآں، بیرون ملک جاری شدہ پاور آف اٹارنی کو قانونی تقاضوں کے مطابق تصدیق شدہ ہونا چاہیے۔

قاعدہ 3: تسلیم شدہ ایجنٹ کو عدالتی نوٹس کی ترسیل:یہ قاعدہ درج ذیل باتیں بیان کرتا ہے:اگر کسی تسلیم شدہ ایجنٹ کو عدالتی نوٹس یا کوئی قانونی عمل بھیجا جائے، تو اسے ایسا ہی تصور کیا جائے گا جیسے کہ وہ براہِ راست فریق کو پہنچایا گیا ہو۔یہ قاعدہ ان تمام تسلیم شدہ ایجنٹس پر لاگو ہوتا ہے جو قاعدہ 2 کے تحت آتے ہیں۔                                                تشریح:فیصلہ نثار احمد بنام محمد امین (PLD 2011 SC 446) میں سپریم کورٹ نے یہ اصول واضح کیا کہ تسلیم شدہ ایجنٹ کو نوٹس کی ترسیل کی قانونی حیثیت کا انحصار اس ایجنٹ کی درست تعیناتی پر ہے۔ اگر ایجنٹ کو مناسب طریقے سے مجاز نہ بنایا گیا ہو تو نوٹس کی ترسیل غیر موثر سمجھی جائے گی۔ عدالت نے مزید کہا کہ قاعدہ 3 کا مقصد عدالتی کارروائی کو آسان بنانا ہے، بشرطیکہ ایجنٹ کی تعیناتی قانونی ہو۔                                                                     

سپریم کورٹ آف پاکستان کے قائم کردہ اہم اصول:اجازت نامہ لازمی ہے: سپریم کورٹ نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ تسلیم شدہ ایجنٹ یا وکیل کا اختیار قانونی طور پر جائز اور دستاویزی ہونا چاہیے۔ذاتی حاضری کا عدالت کا اختیار: عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ قاعدہ 1 کے تحت ضروری سمجھنے پر فریق کی ذاتی حاضری کا مطالبہ کر سکتی ہے۔نوٹس کی ترسیل: سپریم کورٹ نے اس بات کی توثیق کی کہ تسلیم شدہ ایجنٹ کو نوٹس کی ترسیل فریق کے لیے موثر اور لازم تصور کی جائے گی، بشرطیکہ ایجنٹ کی تعیناتی قانونی ہو۔                                                                                                      

عملی اہمیت :  نمائندگی میں آسانی: ایسے فریقین جو عدالت میں پیش ہونے سے قاصر ہیں، وہ تسلیم شدہ ایجنٹ یا وکیل کو اپنی طرف سے کارروائی کے لیے مجاز بنا سکتے ہیں، جس سے انصاف تک رسائی ممکن ہوتی ہے۔پاور آف اٹارنی کی اہمیت: پاور آف اٹارنی کو قانونی طریقے سے تیار اور تصدیق شدہ ہونا چاہیے تاکہ ایجنٹ مؤثر نمائندگی کر سکے۔نوٹس کی ترسیل میں آسانی: قاعدہ 3 عدالتی کارروائیوں کو موثر بناتا ہے کیونکہ تسلیم شدہ ایجنٹس کے ذریعے نوٹسز اور قانونی احکامات کی ترسیل آسان ہو جاتی ہے۔

عدالت کسی دعویٰ کو صرف پاور آف اٹارنی میں کسی خرابی کی بنیاد پر مسترد نہیں کر سکتی: کسی دعویٰ کو صرف پاور آف اٹارنی میں کسی خرابی کی بنیاد پر مسترد نہیں کر سکتی۔ پاور آف اٹارنی میں خامیاں ایک عملی معاملہ ہیں اور یہ مقدمے کے قابل سماعت ہونے کی بنیادی حیثیت کو متاثر نہیں کرتیں۔ دعویٰ کو مسترد کرنے کا معاملہ سی پی سی 1908 کے آرڈر VII رول 11 کے تحت طے کیا جاتا ہے، جو دعویٰ مسترد کرنے کی مخصوص وجوہات بتاتا ہے، جیسے عدالت کی دائرہ اختیار کی کمی، دعویٰ کے لیے وجہ ظاہر نہ کرنا، یا دعویٰ قانون کی نظر میں ناقابل قبول ہونا۔ پاور آف اٹارنی میں کسی خرابی کو ان وجوہات میں شامل نہیں کیا گیا۔

پاکستانی عدالتی تشریح:پاکستان کی عدالتوں نے یہ وضاحت کی ہے کہ پاور آف اٹارنی میں موجود خامیوں کو درست کیا جا سکتا ہے، اور ایسی خامیاں فریقین کے بنیادی حقوق پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔ دعویٰ مسترد کرنے کے بجائے عدالت مندرجہ ذیل اقدامات کر سکتی ہے:

خرابی کو درست کرنے کی اجازت دینا:

عدالت فریق کو ایک درست پاور آف اٹارنی جمع کرانے یا موجودہ خامیوں کو دور کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔

پاور آف اٹارنی کے بغیر کارروائی کرنا:بعض صورتوں میں، عدالت مدعی (پاور آف اٹارنی جاری کرنے والے فریق) کو ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر وکیل یا ایجنٹ کی کارروائیوں کی تصدیق کی اجازت دے سکتی ہے۔

متعلقہ عدالتی نظیریں:محمد یار بنام  محمد امین (2008 SCMR 222):سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ پاور آف اٹارنی میں موجود عمل کی خامیاں دعویٰ کو ناقابل قبول نہیں بناتیں۔ عدالت نے زور دیا کہ عملی خامیوں کی بنیاد پر انصاف کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔

مسرت غلام کبریٰ بنام  حکومت سندھ (PLD 1996 کراچی 401):اس مقدمے میں عدالت نے کہا کہ اگر پاور آف اٹارنی میں کوئی خرابی ہو، تو عدالت کو متعلقہ فریق کو موقع دینا چاہیے کہ وہ خامیوں کو درست کرے یا ذاتی حیثیت میں پیش ہو۔ ایک خراب پاور آف اٹارنی دعویٰ کو مسترد کرنے یا مقدمہ ختم کرنے کی بنیاد نہیں بن سکتی۔

عبدالوحید بنام محمد شفیع (PLD 2011 لاہور 310):لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ پاور آف اٹارنی میں معمولی تکنیکی خامیاں دعویٰ کو ختم کرنے کا جواز فراہم نہیں کرتیں۔ عدالت کو مقدمے کی میرٹ پر توجہ دینی چاہیے نہ کہ عملی بے قاعدگیوں پر۔

قانونی اصول:پاور آف اٹارنی میں خامیاں قابل اصلاح ہیں:عدالت پاور آف اٹارنی میں موجود خامیوں کو درست کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔

دعویٰ کو مسترد کرنے کا معیار:دعویٰ کو مسترد کرنا ایک اہم معاملہ ہے اور یہ صرف ان مخصوص وجوہات کی بنا پر کیا جا سکتا ہے جو آرڈر VII رول 11 سی پی سی میں بیان کی گئی ہیں۔ پاور آف اٹارنی میں موجود عملی مسائل ان وجوہات میں شامل نہیں ہیں۔

عملی طریقہ کار:اگر کسی پاور آف اٹارنی میں کوئی خامی ہو تو:مخالف فریق اعتراض اٹھا سکتا ہے۔عدالت خامی کو دور کرنے کے لیے ہدایات جاری کر سکتی ہے۔عدالت پہلے سے کی گئی کارروائی کو درست قرار دے سکتی ہے، بشرطیکہ متعلقہ فریق تصدیق کرے۔پاور آف اٹارنی میں کسی خرابی کی بنیاد پر دعویٰ مسترد نہیں کیا جا سکتا، لیکن عدالت عمل کو درست کرنے کے لیے مناسب ہدایات دے سکتی ہے۔ ایسے معاملات میں عدالت کا مقصد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا اور غیر ضروری رکاوٹوں سے بچنا ہوتا ہے

Monday, 21 October 2024

Approval of the 26th Constitutional Amendment and Its Impact: A Detailed Analysis By: Sahibzada Mian Muhammad Ashraf Asmi Advocate Chairman, South Asian Lawyers Unity

 


Approval of the 26th Constitutional Amendment and Its Impact: A Detailed Analysis

By: Sahibzada Mian Muhammad Ashraf Asmi Advocate
Chairman, South Asian Lawyers Unity

The 26th Constitutional Amendment is a significant milestone in Pakistan's political and constitutional history. It was introduced by the current government and its allied parties after approval from both houses of Parliament. The passage of this amendment is not only a political achievement for the government but also considered a major advancement in the rule of law and the independence of institutions in the country. In this article, we will shed light on the details of the 26th Constitutional Amendment, its provisions, outcomes, and its impact on national politics.

The government and its allied parties finally succeeded in getting the constitutional amendment passed by Parliament. The Senate approved the 26th Constitutional Amendment on Sunday with a two-thirds majority of 65 votes, while there were 4 votes against it. Fifty-eight votes came from the government, five from Jamiat Ulema-e-Islam (JUI), and two from Balochistan National Party (Mengal). During the clause-by-clause approval of the amendment, members from Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI), Sunni Ittehad Council, and Majlis Wahdat-e-Muslimeen (MWM) walked out of the house. Later, the Senate passed all 22 clauses of the 26th Constitutional Amendment in stages.

In the related session, JUI-F Senator Kamran Murtaza presented an amendment for the elimination of interest (Riba), and during the session, a clause to completely abolish interest by January 1, 2028, was unanimously approved. After the upper house, the lower house (National Assembly) also approved the constitutional amendment early Monday morning. Under the chairmanship of Speaker Ayaz Sadiq, the National Assembly convened late Sunday night, where Naveed Qamar moved a motion to suspend the regular proceedings of the house, which was accepted. Routine proceedings were suspended for October 20 and 21. During the session, Law Minister Azam Nazir Tarar presented the motion for the 26th Constitutional Amendment, which was supported by 225 members, with 12 opposing the motion. Following this, the amendment was approved clause by clause, with 225 members voting in favor of the bill, while 4 opposed it. On this occasion, PTI members walked out of the house.

Under the 26th Constitutional Amendment, a constitutional bench of the Supreme Court will be formed, and the Judicial Commission will determine the number of constitutional benches and judges in the Supreme Court. Constitutional benches will also be formed in the Supreme Court and High Courts, and a 12-member special parliamentary committee will be established for the appointment of the Chief Justice. Judges from all provinces will be appointed equally to the constitutional benches, and the authority to take suo motu notice under Article 184 will rest with the constitutional benches. The parliamentary committee will appoint the Chief Justice from among the three most senior judges of the Supreme Court, and the committee's meeting will be held in-camera. On the committee’s recommendation, the Prime Minister will send the Chief Justice's name to the President of Pakistan. In case of refusal by a judge, the name of the next senior-most judge will be considered. The tenure of the Chief Justice will be three years, but the Chief Justice will retire before completing the term upon reaching 65 years of age. Under the amendment, the authority to take suo motu notice will be removed from the Chief Justice, and judges’ promotion will be based on performance.

According to the amendment, the Chief Election Commissioner will continue in office until a new Chief Election Commissioner is appointed after the end of their term. Under the amendment to Article 48(4) of the Constitution, advice approved by the President, Cabinet, and Prime Minister will not be challenged in any court or tribunal. The proposed amendment to Article 111 allows advisors to the Advocate General to address provincial assemblies on legal matters. The judiciary will not have the authority to issue rulings or interpretations beyond the requests made. According to the amendment to Article 179, the Chief Justice may only issue notices related to the petition.

Earlier, the federal cabinet approved the draft of the 26th Constitutional Amendment. A meeting of the federal cabinet, chaired by Prime Minister Shehbaz Sharif, was held in Islamabad on Sunday. During the meeting, Law Minister Senator Azam Nazir Tarar gave a detailed briefing on the 26th Constitutional Amendment. The federal cabinet approved the proposed draft of the 26th Constitutional Amendment, which was backed by the government's allied parties, including the Pakistan Peoples Party (PPP). Prime Minister Shehbaz Sharif, while addressing the meeting, stated that the cabinet had made the best decision for Pakistan’s development and prosperity, and for improving the country’s conditions. He congratulated the entire nation on the cabinet’s approval of the 26th Constitutional Amendment. The Prime Minister said the cabinet had upheld the oath to serve the country's development and the welfare of its people, and this milestone was achieved for the constitutional stability and rule of law after the economic stabilization of the country. He emphasized that the government would continue to work towards the nation's progress, prosperity, and stability.

Background of the 26th Constitutional Amendment Constitutional amendments in Pakistan have always reflected political issues and government priorities. The purpose of the 26th Constitutional Amendment was to bring judicial reforms and improve the justice system in the country. During this amendment, it was decided to establish constitutional benches in the country’s judiciary, particularly in the Supreme Court and High Courts, to ensure greater transparency and expedited decisions on constitutional matters.

This constitutional amendment became especially significant when the government and its allied parties successfully obtained approval from both houses of Parliament, the Senate, and the National Assembly. The Senate approved the amendment with a two-thirds majority of 65 votes, while only 4 members opposed it. Fifty-eight members of the government, 5 from Jamiat Ulema-e-Islam (F), and 2 from the Balochistan National Party (Mengal) voted in favor of the amendment. Similarly, the National Assembly also passed this amendment with a two-thirds majority of 225 members.

The Importance of the Clause on the Abolition of Interest One of the key provisions of the 26th Constitutional Amendment is related to the complete abolition of interest (Riba). During the amendment, JUI-F Senator Kamran Murtaza proposed the elimination of interest, which was unanimously approved. This decision expresses the determination to completely eliminate interest in the country by January 1, 2028. The issue of the abolition of interest has been a significant matter in Pakistan, given the country’s Islamic ideology and constitutional obligations. This amendment is expected to promote principles of economic justice and reduce the negative impact of the interest-based system on the poor segments of society.

Constitutional Benches and Judges’ Appointments The 26th Constitutional Amendment has introduced a new initiative in the judiciary. Under this amendment, constitutional benches will be established in the Supreme Court and High Courts, which will review and decide on various constitutional issues across the country. These benches will be formed with equal representation from all provinces, and the authority to take suo motu notices will rest with these constitutional benches.

The amendment proposes significant changes in how judges are appointed and how judicial decisions are made regarding constitutional matters

Saturday, 17 August 2024

The Fragrance of Sargodha in My Heart ........Written by: Sahibzada Mian Muhammad Ashraf Asmi, Advocate

 

The Fragrance of Sargodha in My Heart

           Written by: Sahibzada Mian Muhammad Ashraf Asmi, Advocate

On a hot and humid afternoon of August 13, 2024, I set off for Sargodha. The purpose of this visit was to pay my respects at the shrine of my great uncle and spiritual guide, Hazrat Hakeem Mian Muhammad Inayat Khan Qadri Naushahi (may his soul rest in peace), and to stroll through the streets and markets of Sargodha, so I could relive the memories of the past in the present moment. My old friend and classmate from Government Comprehensive School Sargodha, and later from Government College of Commerce Sargodha, Mr. Muhammad Javed Iqbal Mustafai, hosted me as always. We wandered through the streets and markets of Sargodha, refreshing old memories. Perhaps "refreshing" isn’t the right word, because we don’t need to refresh something we haven’t forgotten.

I spent the years from 1974 to 1993 in Sargodha. My dear uncle took care of me with great love. He brought me from my hometown Lahore, asking my mother to let me stay with him. So, from first grade to completing my master’s degree, I spent my time in Sargodha. Later, I returned to my hometown Lahore, but despite being in Lahore, I could never forget Sargodha, not even for a moment. How could I forget? Forgetting it would be like forgetting myself, which isn’t possible.








 

As soon as I arrived in Sargodha, I visited the blessed shrine of Hazrat Hakeem Mian Muhammad Inayat Khan Qadri Naushahi (may his soul rest in peace). I also paid my respects to his son and successor, Hakeem Mian Muhammad Yousuf Qadri Naushahi. A special prayer was held at the "Zawiya Sargodha" in memory of the martyrs of the Pakistan Movement, which I attended. I also had the honor of meeting Professor Dr. Khalid Naseer, a Physics professor at the University of Sargodha, and Mr. Javed Mustafai was there as well. In the evening, Mr. Javed Mustafai and I took a walk through the streets and markets of Sargodha. We passed by Kot Fareed and Ambala Muslim College, explored the city, and then enjoyed Falooda at Hafiz Soda Water in Muslim Bazaar. We also relished some cold, delicious mangoes from a stall near Liaquat Market. We gathered scattered memories from Kachehri Bazaar, Khayyam Cinema, Railway Road, and Shama Cinema Chowk. Javed Mustafai is an exceptional person. I have been friends with him since 1981, when we were at Jamia High School in Sargodha.

On the morning of August 14, I, along with Mr. Javed Mustafai, visited the office of Daily Tijarat on Khushab Road to meet Mr. Malik Muhammad Muazzam, the editor of Daily Tijarat, and the renowned poet Mr. Mumtaz Arif. Malik Muhammad Muazzam is a highly patriotic person and a devoted lover of the Prophet Muhammad (peace be upon him). Similarly, Mr. Mumtaz Arif is also filled with the love of the Prophet (peace be upon him). He is a well-known poet and journalist. A few weeks ago, both Mr. Malik Muazzam and Mr. Mumtaz Arif had come to Lahore High Court to attend the launch ceremony of my new book "Man Ki Nagri." They were extremely kind to me. While we were still enjoying their hospitality, another prominent intellectual, lover of the Prophet (peace be upon him), and a famous lawyer, Mr. Mirza Muhammad Munir, along with his son Advocate Mirza Alamgir, arrived. Mr. Malik Muazzam is the real nephew of Mr. Mirza Muhammad Munir. At this moment, Mr. Mirza Muhammad Munir, Mr. Malik Muazzam, and Mr. Mumtaz Arif shared many stories about Hazrat Khwaja Qamaruddin Sialvi (may his soul rest in peace), Hazrat Khwaja Fakhruddin (may his soul rest in peace), Mian Abdul Rashid Sahib, and Justice Pir Muhammad Karam Shah (may his soul rest in peace), which strengthened our faith. The conversation also included memories of Mr. Mirza Muhammad Munir and Mr. Mirza Muhammad Muzaffar. Mr. Javed Mustafai actively participated in the discussion, and I listened intently. The spiritual peace I felt from such a beautiful gathering is beyond words. Mr. Malik Muhammad Muazzam’s love and kindness enriched both me and Mr. Javed Mustafai. I presented my new book "Man Ki Nagri" to Mr. Mirza Muhammad Munir and kissed his blessed hand.

After seeking permission to leave from the office of Daily Tijarat, Mr. Javed Mustafai and I went to the dental clinic of our classmate from Government Jamia High School Sargodha, Dr. Irfan Ali Zafar Qureshi, at Gol Chowk Sargodha. We had a great time chatting with Dr. Irfan. After that, we stopped by Abdul Latif’s chickpeas shop, had some chickpeas with bread, and then headed to Sargodha Railway Station. The Sargodha Railway Station holds great importance for me. My cousin had a medical store at Shama Cinema Chowk on this road, and I also ran a library there for a while. I spent my childhood and youth on this road. The railway station looked deserted; there were no trains present. I learned that only seven trains come here now, and goods trains have completely stopped. The platforms were empty and quiet. There used to be a bookstall run by Shah Sahib on the platform, but it was gone. A few tea stalls were still there, but they were also quiet. There was only one porter at the entire station, sitting idle. The governments have done such a great injustice to our railway system that only God can hold them accountable. There used to be a restaurant at the station run by our college classmate Muhammad Saleem and his father. I often met him there, but now it was run by another contractor, and there were no customers. I only saw one railway police officer on duty. The place felt haunted. Just as the country’s economy and society have been badly damaged, how could the railway department have survived? While sitting on the platform, I contacted two friends, Alam Baloch and Kausar Hayat, who were schoolmates. They came over, and together with Javed Mustafai, Kausar Hayat, and Alam Baloch, we reminisced for several hours, recalling our school days and teachers. We had tea and shared stories. I presented my new book "Man Ki Nagri" to both Kausar Hayat and Alam Baloch. During this time, a very dilapidated train, the Millat Express, also arrived two hours late from Karachi, heading to Lala Musa. I deeply absorbed the essence of Sargodha while sitting on the railway platform.

After saying goodbye to both Alam Baloch and Kausar Hayat, I returned to Lahore that evening, having spent a love-filled day. I had a wonderful time in the hospitality of Mr. Javed Mustafai. May Sargodha remain safe and sound till the end of time. #Sqargodha #Asmi

Friday, 16 August 2024

من میں رچی بسی سرگودہا کی خوشبو صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ Sargodha Visit

 من میں رچی بسی سرگودہا کی خوشبو

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


 13 اگست 2024 کی ایک حبس زدہ سپہر کو  میں سرگودہا  کے لیے روانہ ہوا۔ سرگودہا جانے کا مقصد اپنے عظیم ماموں جان اور پیرو مرشد جناب حضرت حکیم میاں محمد عنایت خاں قادی نوشاہی ؒ کے دربار پر حاضری اور سرگودہا کی گلیوں بازاروں میں گھومنا تھا تاکہ بیتے ہوئے لمحوں کو لمحہ موجود میں محسوس کرسکوں۔ ہمدم دیرینہ عظیم درسگاہ گورنمنٹ کمپری ہینسیو سکول سرگودہا میں میرے ہم جماعت اور گورنمنٹ کالج آف کامرس سرگودہا جیسے عظیم گہورا علم کے ساتھی جناب محمد جاوید اقبال  مصطفائی ہمیشہ کی طرح میرے  میزبان بنے۔ ہم نے سرگودہا کی گلیوں بازاروں میں خوب گھوم پھر کر پرانی یادیں تازہ کیں یادیں تازہ کرنا شاید لفط درست نہ ہے کیونکہ تازہ تو تب کرتے جب بھول چکے ہوتے۔ سرگودہا کی سرزمین پر 1974 سے لے کر 1993  تک کا عرصہ گزرا۔ قبلہ ماموں جان نے بڑی محبت کے ساتھ پرورش کی۔ مجھے میرے آبائی شہر لاہور سے میری امی جان سے مانگ کر لے آئے کہ یہ بیٹا مجھے دے دو۔ یوں کلاس اول سے لے کر ماسٹر ڈگری کرنے تک سرگودہا کی آغوش میں وقت گزرا بعد ازاں پھر اپنے آبائی گھر لاہور آگیا۔ لیکن لاہور آمد کے باوجود سرگودہا کو ایک لمحے کے لیے بھی فراموش نہیں کر سکا۔ فراموش بھی کیسے ہو سکتا ہے خود کو فراموش کرنا ممکن نہیں ہوتا۔                                                      

سرگوہا پہنچتے ہی قبلہ حضرت حکیم میاں محمد عنایت خاں قادری نوشاہی ؒ کے مزار مبارک پر حاضری دی۔ جگر گوشہ قبلہ حکیم میاں محمد عنایت خاں قادری نوشاہی ؒ کے فرزند ارجمند اور جانشین جناب حکیم میاں محمد یوسف قادری نوشاہی کی خدمت اقدس میں حاضری دی۔  زاویہ سرگودہا میں تحریک پاکستان کے شہداء کی یاد میں خصوصی دعا کا انعقاد کیا گیا تھا اُس میں شرکت کی۔ یونیورسٹی آف سرگودہا کے فزکس کے اُستاد جناب پروفیسر ڈاکٹر خالد نصیر سے بھی   ملاقات کا شرف ملا۔ اور جناب جاوید مصطفائی بھی وہاں موجود تھے۔ یوں شام کے وقت جناب جا وید مصطفائی کی معیت میں سرگودہا کی گلیوں اور بازاروں میں سیر کی۔ کوٹ فرید  سے انبالہ مسلم کالج کے ساتھ سے گزرتے ہوئے شہر کی سیر اور  پھرمسلم بازار میں حافظ سوڈا واٹر سے فالودہ کھایا اور پھر لیاقت  مارکیٹ کے پاس سٹال سے ٹھنڈے ٹھندے آم خوب مزئے لے کر کھائے۔ کچہری بازار،  خیام سینماء، ریلوئے روڈ، شمع سینماء چوک میں بکھری ہوئی  یادیں سمیٹیں۔ جاوید مصطفائی باکمال شخص کا نام ہے۔ میری دوستی 1981 سے اُس سے ہے جب ہم  جامعہ ہائی سکول  سرگودہا میں تھے۔


 14  اگست کی صبح ہوتے ہی جناب جاوید مصطفائی  کے ہمراہ  روزنامہ تجارت کے ایڈیٹر جناب ملک محمد معظم اور ممتاز شاعر جناب ممتاز عارف سے ملاقات کے لیے خوشاب روڈ پر روزنامہ تجارت کے دفتر میں حاضری دی۔ ملک محمد معظم انتہائی محب وطن اور نبی پاکﷺ کی عاشق ہستی کا نام ہے۔اِسی طرح جناب ممتاز عارف بھی عشق رسول ﷺ کی دولت سے مالامال ہیں۔ معروف شاعر ہیں صحافی ہیں۔ ملک معظم صاحب اور ممتاز عارف صاحب چند ہفتے قبل میری نئی کتاب من کی نگری کی تقریب رونمائی میں شرکت کے لیے  خصوصی  طور

 پرلاہور ہائی کورٹ تشریف لائے تھے اور کمال مہربانی فرمائی تھی۔  ملک معظم صاحب اور ممتاز عارف صاحب کی نوازشات سمیٹ رہے تھے کہ اِسی اثناء میں  ملک کے ممتاز دانشور محب وطن عاشق رسولﷺ جناب مرزا محمد منور ؒ  اور مرزا محمد مظفر ؒ  کے چھوٹے بھائی ممتاز قانون دان جناب مرزا محمد منیر صاحب اپنے بیٹے جناب مرزا عالمگیر ایڈووکیٹ کے ہمراہ  تشریف لے آئے۔ملک محمد معظم صاحب  مرزا محمد منور ؒ  اور مرزا محمد مظفر ؒ  اورمرزا محمد منیر  صاحب کے حقیقی بھانجے ہیں۔  اِس موقع   حضرت خوجہ قمر  الدین سیالوی ؒ، حضرت خواجہ فخر الدین ؒ،  میاں عبدالرشید صاحب جناب نوٹاں والی سرکار ؒ  جناب جسٹس پیر محمد کرم شاہؒ  کے حوالے سے جناب مرزا محمد منیر ایڈووکیٹ اور ملک معظم  صاحب اور جناب ممتاز عارف صاحب نے بہت سی باتیں سنائیں اور ایمان کو تازہ کیا۔مرزا محمد منور صاحب ؒ  اور مرزا محمد مظفر صاحب ؒ  کا  ذکر خیر ہوا۔جناب جاوید مصطفائی صاحب اِس گفتگو میں بھر پور طریقے سے شریک رہے اور ناچیز ہمہ تن گوش رہا۔ اِتنی خوبصور ت روحانی نشست نے جو سکون دیا  وہ بیان سے قاصر ہوں۔ جناب ملک محمد معظم صاحب کی محبتوں اور شفقتوں  سے میں اور جاوید مصطفائی مالا مال ہوئے۔ مرزا محمد منیر ایڈووکیٹ کی خدمت میں اپنی نئی کتاب من کی نگری پیش کی اور اُن  کے دست مبارک کو بوسہ دیا۔                                  


روزنامہ تجارت کے دفتر سے اجازت لی اور پھر گورنمنٹ جامعہ ہائی سکو سرگودہا کے ہی میرے اور جاوید مصطفائی  کے کلاس فیلو جناب ڈاکٹر عرفان علی ظفر قریشی کے ڈینٹل کلینک گولچوک سرگودہا پہنچے  ڈاکٹر عرفان صاحب سے ملاقات کی خوب گپ شپ لگائی۔ اُس کے بعد ہمارا پڑاو عبدالطیف چنے والے کی دکان تھا وہاں سے روٹی اور چنے کھائے اور ریلوئے اسٹیشن سرگودہا کی راہ لی۔ ریلوئے اسٹیشن سرگودہا  میرے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے  اِسی روڈ پر شمع سینما چوک پر میرے کزن کا میڈیکل سٹور تھا  اور ساتھ میں نے کچھ عرصہ لائبریری بھی بنائے  رکھی اِس لیے اِس  سڑک پرمیرا بچپن اور لڑکپن گزرا۔ ریلوئے اسٹیشن  اجڑا ہوا دیکھائی دے رہا تھا۔ کوئی گاری موجود نہ تھی پتہ چلا صرف سات گاڑیاں ادھر آتی ہیں۔ مال گاڑیاں مکمل طور پر بند ہیں۔ ریلوے اسیشن کے پلیٹ فارم سنسان تھے۔  پلیٹ فارم پر شاہ صاحب کا ایک بک سٹال ہوتا تھا وہ ختم ہوچکا تھا۔ چند ایک ٹی سٹال تھے جہاں پر بھی خاموشی تھی۔ پورئے ریلوئے اسٹیشن پر صرف ایک قلی  موجود ہے وہ بھی بیکار بیٹھا تھا۔  اتنا بڑا ظلم ان حکومتوں نے ہمارئے ریلوے کے نظام پر کیا ہے کہ اللہ پاک اِن کو پوچھے۔ ریلوے اسٹیشن پر موجود ایک ریسٹورنٹ کو ہمارا کالج کا کلاس فیلو محمد سلیم اپنے والد صاحب کے ساتھ چلاتا تھا۔ اکثر اِس سے ملاقات ہوتی تھی۔ وہ بھی سنسنان پڑا تھا  اب کسی اور ٹھیکے دار کے پاس تھا لیکن وہاں بھی کوئی گاہک نہ تھا۔ ریلوے پولیس کا بھی صرف ایک اہلکار نظر آرہا تھا۔ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے آسیب کا سایہ ہے۔ جس طرح  ملک کی معیشت، معاشرت  بُری طرح تباہ ہوئی ہے ریلو ے کے محکمے نے کیسے بچنا تھا۔ پلیٹ فارم پر بیٹھ کر دو دوستوں سے رابطہ ہوا، عالم بلوچ اور کوثر حیات سکول کے وقت کے دوست ہیں وہ  تشریف لے آئے۔ یوں جاوید مصطفائی، ناچیز اور کوثر حیات، اور عالم بلوچ،  ہم نے کئی گھنٹے گپ شپ کی سکول کے دوستوں کو یاد کیا اساتذاکرام کا ذکر ہوا۔ چائے پی۔ دونوں دوستوں کوثر حیات اور عالم بلوچ کو اپنی نئی کتاب من کی نگری پیش کی۔ اِس اثنا میں ایک ٹرین ملت ایکسپرس بھی کراچی سے آئی جس نے لالہ موسی جانا تھی۔ انتہائی اجڑی ٹرین دوگھنٹے لیٹ پہنچی تھی۔ ریلوے اسٹیشن  کے پلیٹ فارم پر بیٹھ کر سرگودہا کی خوشبو کو  خوب خود میں جذب کیا۔

 دونوں دوستوں عالم بلوچ اور کوثر حیات سے اجازت لی۔  یوں محبت بھرا دن گزارنے کے بعد میں  اسی شام  واپس لاہور لوٹ 

آیا۔جاوید مصطفائی کی میزبانی میں بہت اچھا وقت گزرا۔ سرگودہا تو سلامت رہے تا قیامت رہے۔      











                                                                                  


Monday, 12 August 2024

اللہ پاک کا اِس کے بندے سے تعلق:............ اشرف عاصمی کی قلم سے.Allah's relationship with His servant: By the pen of Ashraf Asmi





اللہ پاک کا اِس کے بندے سے تعلق:
اشرف عاصمی کی قلم سے
جب جب گزرے ہوئے لمحات کی تصاویر دماغ کے نہال خانے میں رقصاں ہوتی ہیں تب تب زندگی کی ترتیب اور خالق کی مخلوق کے ساتھ تعلق کی ایک ایسی تدبیر واضح دیکھائی دینا لگتی ہے کہ ماضی کی بے تر تیب حال کی ترتیب بن کر سامنے آ چکی ہوتی ہیں۔ میرے خالق کو اپنے بندے کی ایک ایک ضرورت کا ایسا ادراک ہے کہ بندے کو اپنی جس طلب کا خود احساس نہیں ہوتا خالق وہ ضرورت بھی ایسے پوری کرتا ہے کہ جیسے ماں اپنے نومولود بچے کی ہر ہر ضرورت کا ادراک رکھتی ہے۔ ماں کو تو پھر بھی طلب و رسد کی چکی میں پسنا ہوتا ہے لیکن میرا خالق تو ہر شے سے ماورا ہے اس کے ہاں تو نہ کسی شے کی کمی ہے اور نہ ہی اس نے عطا کرنے کے لیے اسباب کو دیکھنا ہوتا ہے وہ تو اسباب کا خالق و مالک ہے۔ بندے کا کامل یقین اسے اپنے خالق کے ہاں اس طرح مقبول بنادیتا ہے کہ خالق بندے کے یقین کو اس کے ایمان کی طرح محکم کرکے ہونے یانہ ہونے کے نشیب و فراز سے آزاد کردیتا ہے اور بندے کا تیقن اسے قناعت کی ایسی دولت سے مالا و مال کردیا ہے کہ اسے دنیاوی ضروریات ہیچ دیکھائی دیتی ہیں۔بندہ اپنے رب کی ربوبیت پر اس یقین کے ساتھ ایمان لا چکا ہوتا ہے کہ جیسے اس کے اپنے وجود کے ہونے کی وجہ صرف اس کا رب ہی تو ہے۔

Saturday, 27 July 2024

Book Launch Event of "Man Ki Nagri" by Sahibzada Mian Muhammad Ashraf Asmi at Lahore High Court

 Book Launch Event of "Man Ki Nagri" by Sahibzada Mian Muhammad Ashraf Asmi at Lahore High Court

Special Contribution by: Pir Khawaja Mian Muhammad Umar Ashraf Asmi, Sahibzada Mian Huzaifa Ashraf Asmi








At the grand book launch event for Ashraf Asmi’s new book "Mann Ki Nagri" held in Karachi Martyrs Hall at Lahore High Court, various speakers, national and social leaders, and distinguished lawyers shared their thoughts on the book. A large number of lawyers, members of civil society, scholars, and people from various walks of life attended the event.

Addressing the audience, the author Sahibzada Mian Muhammad Ashraf Asmi Advocate emphasized that love for the Prophet Muhammad (PBUH) is embedded in our blood, and "Mann Ki Nagri" is essentially about the relationship between a believer and Allah and the Prophet Muhammad (PBUH). Ashraf Asmi remarked that in the universe, Allah has bestowed the highest status upon the prophets and messengers.



Chief News Editor of Daily Nawa-i-Waqt, Dilawar Chaudhry, urged the nation to embrace book reading in the current stifling environment, as it can help eradicate hatred and extremism from society. He stressed the need for libraries at the Union Council level across the country. Columnist of Daily Jang, Mazhar Barlas, congratulated Ashraf Asmi on the significant endeavor of "Mann Ki Nagri" and elaborated on the mysteries of spirituality. He emphasized the need for a spiritual revolution to end the chaos in Pakistani society.

Former President of Lahore High Court Bar and Member of Pakistan Bar Council, Pir Masood Chishti, congratulated Ashraf Asmi Advocate on the publication of "Mann Ki Nagri" and highlighted his efforts to make legal knowledge accessible to the public through video lectures and books. Former President of Lahore High Court Bar and Member of Pakistan Bar Council, Hafizur Rahman Chaudhry, described "Mann Ki Nagri" as a breath of fresh air in these troubled times and praised Ashraf Asmi for his dedicated work in the legal field.

Former Secretary of Lahore High Court Bar and Chairman of the Education Committee of Punjab Bar Council, Barrister Muhammad Ahmed Qayyum, in his speech, emphasized the interconnection between "Mann Ki Nagri" and the legal profession. He praised the reflection of societal issues in the book and highlighted the impact of inflation and the increase in court fees on the public. He congratulated Ashraf Asmi on the publication of the book.

Allama Muhammad Qasim Alvi also congratulated Ashraf Asmi on the publication of "Mann Ki Nagri" and prayed for his success in serving humanity through the legal profession. Allama Qasim Alvi criticized the Supreme Court’s decision on the finality of prophethood, calling it contrary to Islam and the Constitution of Pakistan. Syed Muhammad Mazahir Hashmi noted that those who seek Allah are sincere and devoted, likening them to people who surrender themselves to the Creator in the cave of Hira.

Dr. Qurat-ul-Ain highlighted that Sahibzada Mian Muhammad Ashraf Asmi, although a lawyer by profession, is also a lover of the Prophet Muhammad (PBUH). She mentioned that the first "lawyer" of this universe is Allah Himself and that those who recite "Ya Wakeel" are under the protection of Allah. She emphasized the advocacy role of the Prophet Muhammad (PBUH) for widows, the poor, the disabled, and even birds.

Prominent lawyer, poet, writer, and columnist Ali Ahmad Kiyani remarked that Ashraf Asmi has sparked a revolution in society with "Mann Ki Nagri." He emphasized the importance of recognizing oneself and reflecting on the universe and related matters.

Chairman of Pakistan Civil Society, Ali Imran Shaheen, acknowledged the revolutionary message of "Mann Ki Nagri." Dr. Farid Ahmad Pracha stressed the importance of unity for peace and brotherhood in society. Dr. Nabila Tariq Advocate congratulated Ashraf Asmi on the publication of "Mann Ki Nagri" and called it a national service. Central President of World Columnist Club, Muhammad Nasir Iqbal Khan, presented a resolution to refer to God as "Allah" instead of "Khuda."

Trustee and Secretary of Dr. AQ Khan Hospital Trust, Dr. Shaukat Work, praised "Mann Ki Nagri" as highly beneficial for society and recommended it for every household. Riaz Ahmad Ihsan congratulated the author on the publication and discussed the profound essays in the book.

Former Vice President of Sargodha Bar, Saadia Huma Sheikh, described "Mann Ki Nagri" as the voice of a humble soul and congratulated Ashraf Asmi. Editor of Daily Tijarat, Malik Muhammad Moazzam, expressed his thoughts on "Mann Ki Nagri," congratulated the author, and offered a special prayer at the end of the program. Legal expert Muhammad Rehan Akhtar regarded the publication of Ashraf Asmi’s book as an honor for the lawyer community.

In this dignified event, prominent lawyers Armaghan Masood, Hakim Mian Yusuf Qadri, Mumtaz Arif, Chaudhry Muhammad Aslam, Badr Chishti, Aamir Farooq, Hasan Kamal Pasha, Dr. Raheel Rafiq, Saqib Iftikhar, Haji Shabbir Randhawa, Saeed Ali Imran, Nasir Qadri, MH Shaheen, Muhammad Akram Qadri, Huzaifa Ashraf Asmi, Pir Khawaja Umar Ashraf Asmi, Mian Muhammad Akram, Mian Muhammad Azam, Falak Zahid, and others also spoke. The speakers emphasized that the success of a person lies in connecting with Allah and keeping the heart pure. They highlighted the need for spreading love in society and eliminating hatred. "Mann Ki Nagri" guides one on the path of connecting with Allah and purifying the heart.

The highlight of this grand book launch event was the presidency of Chaudhry Muhammad Aslam, the esteemed English teacher of Ashraf Asmi Advocate from Government Comprehensive High School Sargodha, during his sixth to eighth-grade classes. The event hosts were young lawyers Sahibzada Huzaifa Ashraf Asmi and Khawaja Pir Mian Muhammad Umar Ashraf Asmi.

لاہور ہائی کورٹ میں صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی کی کتاب " من کی نگری " کی تقریب رونمائی Book Launching Ceremony of Man Ki Nagri Written By Ashraf asmi Advocate at Lahore High Court Lahore

    •  لاہور ہائی کورٹ میں صاحبزادہ میاں محمد اشرف  عاصمی کی کتاب " من کی نگری    " کی تقریب رونمائی 

خصوصی تحریر:  پیر  خواجہ میاں محمد عمر اشر ف عاصمی۔صاحبزادہ میاں حذیفہ اشرف عاصمی                                                                



لاہور ہائی کورٹ لاہور کے کراچی شہدا ہال میں منعقدہ   اشرف عاصمی کی نئی تصنیف '' من کی نگری '' کی عظیم الشان تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے مختلف مقررین،قومی و سماجی رہنماؤں اور ممتاز قانون دانوں نے کتاب من کی نگری کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تقریب میں بڑی تعداد میں وکلا، سول سوسائٹی کے ارکان، علمائے کرام اور مختلف طبقہ ہائے زندگی کے لوگ شریک ہوئے، تقریب سے صاحب کتاب صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے خطاب  کرتے ہوئے کہا کہ عشق رسول ﷺ ہمارئے خون میں شامل ہے اور من کی نگری درحقیقت اللہ پاک اور نبی پاک ﷺ سے بندہ مومن کے تعلق کے حوالے سے لکھی گئی ہے۔ اشرف عاصمی کا  کہنا تھا کہ 

کائنات میں رب تعالیٰ نے سب سے اونچا مقام انبیا ء اکرام ؑ  اور رسولوں ؑکو عطا فرمایا ہے۔روزنامہ نوائے وقت کے چیف نیوز ایڈیٹر دلاور چوہدری نے اپنے خطاب میں موجودہ گھٹن کے ماحول میں کتاب سے دوستی کے حوالے سے  پوری قوم پر زور دیا کہ کتاب بینی سے ہی معاشرے میں پھیلی ہوئی کدورتیں، نفرتیں اور انتہاء پسندی کا خاتمہ کیا جاسکتاہے۔ دلاور چوہدری نے ملک بھر میں  یونین کونسل کی سطع پرلائبریریوں  کے قیام کی ضرورت پر زور دیا۔روزنامہ جنگ کے کالم نگار مظہر برلاس نے اپنے خطاب میں من کی نگری کو اہم کاوش قرار دیتے ہوئے اشرف عاصمی کو مبارکباد پیش کی اور روحانیت کے اسرار رموز پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔مظہر برلاس نے پاکستانی معاشرئے میں موجود ہیجان انگیزی کے خاتمہ کے لیے روحانی انقلاب کی ضرورت پر زور دیا۔لاہو رہائی کورٹ بار کے سابق صد ر و ممبر پاکستان  بار کونسل پیر مسعود چشتی نے من کی نگری کی اشاعت پر اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کو مبارکباد دی اور کہا کہ جس طرح سے شعبہ قانون میں اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے اپنے ویڈیو لیکچرز اور قانون کی کتابوں کے ذریعہ سے عوام الناس کو قانون سے عام فہم انداز میں آگاہی دی ہے وہ یقینی طور پر  ہماری ہائی کورٹ بار کے لیے قابل فخر ہے۔سابق صدر لاہو رہائی کورٹ بار و ممبر پاکستان بار کونسل حفیظ الرحمان چوہدری نے من کی نگری کو اِس نفسا نفسی کے دور میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا قرار دیا اور کہا کہ  جس محنت اور جانفشانی کے ساتھ شعبہ قانون میں اشرف عاصمی کام کر رہے ہیں  وہ  قابل ستائش ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق سیکرٹری و چیئرمین ایجوکیشن کمیٹی پنجاب بار کونسل بیرسٹر محمداحمد قیوم  نے اپنے خطاب میں کہا کہ من کی نگری اور شعبہ قانون دونوں لازم ملزوم ہیں تاکہ سائلین کو انصاف کی فراہمی کے لیے ججز دل سے کام لیں اور اپنے دل کی آواز سن کر عوام الناس کو ریلیف دیں۔ بیرسٹر محمد احمد قیوم نے من کی نگری کتاب میں موجود  ایک مضمون معاشرئے کے ناسور  میں جو اشرف عاصمی نے حالات کے عکاسی کی ہے اُس کو بہت سراہا  اور کہا کہ عوام الناس مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں  حکومت نے کورٹ فیسوں کی مد میں ڈھائی سو فیصد اضافہ کردیا ہے۔ 

انھوں من کی نگری کی اشاعت پر اشرف عاصمی کو مبارکباد دی۔ علامہ محمد قاسم علوی نے من کی نگری کی اشاعت پر اشرف عاصمی کو مبارکباد دی اور کہا کہ شعبہ قانون میں جس انداز میں اشرف عاصمی خدمت خلق کر رہے ہیں اللہ پاک اِن کو اس کا اجر عطا فرمائے آمین۔علامہ قاسم علوی نے سپریم کورٹ کے ختم نبوت کے حوالے سے دیئے گئے فیصلے پر کٹری تنقید کی اور اِس فیصلے کو اسلام اور آئین پاکستان سے متصادم قرار دئے دیا۔  سید محمدمظاہر  ہاشمی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ  اللہ پاک کی تلاش دراصل وہی لوگ کرتے ہیں جن کے من کی نگری میں خلوص و وفا ہو۔ وہ لوگ اپنی ذات کے غار حرا میں بیٹھ کر خود کو خالق کائنات کے سپرد کر دیتے ہیں ان پر مالک ِ کائنات کا سایہ انسان کے سائے کے ساتھ چلتا ہے۔ ان کی آواز میں مولا کریم اپنی آواز شامل کر دیتا ہے۔ فقر کی دنیا کو پہچاننا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے خدا،خودی اور کائنات کا جو پیغام دیا ہے۔ وہ ایک نکتہ پر آ ٹھہرتا ہے۔ اور وہ تقویٰ ہے۔ ڈاکٹر قراۃ العین  کا کہنا تھا کہ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں لیکن عاشق رسول ﷺ بھی ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ اس کائنات کا سب سے پہلا ”وکیل“، اللہ تعالیٰ خود ہے۔ یا وکیل کا ورد کرنے والوں کی وکالت مولا کریم خود فرماتے ہیں۔ تاجدار ختم نبوت محسن انسانیت رونق و ارض و سما محمد مصطفی ﷺ نے سب کی وکالت کی۔ بیوگان کی وکالت، غریبوں کی وکالت، معذوروں کی وکالت، حتی ٰ کہ پرندوں کی وکالت کا بھی حق ادا کیا۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف یوں سفر کررہے ہیں کہ جیسے دل خدا کے ساتھ ہو اور پیکر جہاں کے ساتھ ساتھ محسوس ہو۔ ”من کی نگری“ اپنی ذات میں ڈوب جانے سے آباد ہوتی ہے۔ ممتاز قانون دان شاعر مصنف ادیب کالم نگار  علی احمد کیانی کا کہنا تھا کہ اشرف عاصمی نے من کی نگری لکھ کر معاشرئے میں انقلاب برپا کردیا ہے اُن کا کہنا تھا غائب سے آنے والے خیالات جب قرطاس پر بکھرتے ہیں تو پھر یہ قرطاس من کی عکاسی کرنے لگتے ہیں۔ اپنے آپ کو پہچان لینے والے معمولی نہیں ہوتے وہ کائنات اور اس سے وابستہ امور پر غور و فکر کرتے ہیں۔

علی عمران شاہین چئیرمین پاکستان سول سوسائٹی کا کہنا تھا کہ من کی نگر ی لکھ کر اشرف عاصمی نے معاشرئے کو انقلابی پیغام دیا ہے ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے اپنے خطاب میں معاشرئے میں امن بھائی چارئے کے لیے اتحاد امت کی اہمیت پر زور دیا۔ ڈاکٹر نبیلہ طارق  ایڈووکیٹ نے من کی  نگری کی  اشاعت پر اشرف عاصمی کو مبارکباد دی  اور من کی نگری کو قومی  خدمت  قرار دئے دیا۔  ورلڈ کالمسٹ    کلب کے مرکزی صدر محمد ناصر اقبال خان، نے من کی نگری کو اہم کتاب قرار دئے دیا اُنھوں نے اِس موقع  پر ایک قرا  داد  بھی پیش کی کہ ہمیں رب پاک کو خد اکی بجائے اللہ پاک لکھنا اور پکارنا چاہیے۔ڈاکٹر ائے کیو خان ہسپتال ٹرسٹ کے ٹرسٹی و سیکرٹری ڈاکٹر شوکت ورک نے کتاب من کی نگری کو معاشرئے کے لیے انتہائی سود مند قرار دئے دیا اور کہا کہ  یہ کتاب ہر گھر میں ہونی چاہیے۔ریاض احمد احسان نے من کی نگری کی اشاعت پر صاحب کتاب کو مبارکباد پیش کی اور اِس  کتاب میں شامل مضامین کے حوالے سے پر مغز گفتگو کی۔سرگودہا 

با رکی سابق نائب صدر سعدیہ ہما شیخ نے من کی نگری کو ایک فقیر منش انسان کی صدا قرار دیتے ہوئے اشرف عاصمی کو مبارکباد پیش کی۔

روزنامہ  تجارت کے ایڈیٹر ملک محمد معظم نے من کی نگری کے حوالے سے  اپنے خیالات کا  اظہار فرمایا ور کتاب کے مصنف کو مبارکباد پیش کی اور  پروگرام کے اختتام پرخصوصی دعا بھی فرمائی۔ماہر قانون  محمدریحان اختر نے اشرف عاصمی کی کتا ب کی اشاعت کو وکلاء برادری کے لیے اعز ا ز قراردے دیا۔ اِس باوقار تقریب میں ممتاز قانون دان ارمغان مسعود،، حکیم میاں یوسف قادری،ممتاز عارف، چودھری محمد اسلم، بدر چشتی، عامر فاروق، حسن کمال پاشا، ڈاکٹر راحیل رفیق، ثاقب افتخار، حاجی شبیر رندھاوا، سعید علی عمران، ناصر قادری، ایم ایچ شاھین، محمد اکرم قادری، حذیفہ اشرف عاصمی، پیر خواجہ عمر اشرف عاصمی، میاں محمد اکرم، میاں محمد اعظم، فلک زاہد و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ مقررین نے کہا کہ انسان کی کامیابی اللہ کی یاد سے جڑنے اور دل کو پاک و صاف رکھنے میں ہے۔ اس کے لیے معاشرے کو باہم محبت کا جذبہ عام کرنا ہو گا۔ نفرتوں اور کدورتوں کو دور کرنا ہو گا۔ من کی نگری کتاب بندے کے اللہ کے ساتھ تعلق اور دل کو پاک اور صاف رکھنے کی راہ دکھاتی ہے۔ ِ  اِس عظیم الشان  تقریب رونمائی کی خاص بات  یہ تھی کہ اِس تقریب  رونمائی  کی صدار ت   اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کے گورنمنٹ کمپر ی ہینسیو ہائی سکو ل سرگودہا میں کلاس ششم  تا ہشتم کے کلاس  انچارج اور انگریزی کے اُستاد محترم  جناب چوہدری  محمد  اسلم نے کی اور   تقریب رونمائی کے  میزبان نوجوان قانون دان صاحبزادہ حذیفہ اشرف عاصمی اور خواجہ پیر میاں محمد عمر اشرف عاصمی   تھے

Wednesday, 24 January 2024

"Division of Courts in Lahore: Written By Advocate Sahibzada Mian Muhammad Ashraf Asmi


 "Division of Courts in Lahore:

Advocate Sahibzada Mian Muhammad Ashraf Asmi

 

Justice, justice, and more justice – these are the words that every lawyer utters throughout the day in the courts while representing their clients. Every lawyer aspires to achieve justice for their clients. It is a noble and significant task entrusted to lawyers. The lawyer is, in a way, an representative of the Creator. In Pakistan, the legal system has been influenced by English law since the time of British India. Efforts have been made to align these laws with Islamic principles according to the Constitution of Pakistan. According to the Constitution, no law can be in conflict with Islamic laws. The laws in books seem to aim at providing ease for the general public, but the reality is different.

The purpose of laws is to make life easier for the common people. However, the ruling elite in Pakistan has consistently attempted to divide and rule, similar to how the British governed this region. Lahore is the second-largest city in Pakistan, following Karachi. Governance issues and traffic problems in Lahore are so severe that they are beyond description. When the Metro Bus and Orange Line Train projects were initiated, there was strong opposition to these initiatives. However, over time, these projects have proven to be successful and beneficial for the residents of Lahore.

In the administrative division of Lahore, various tehsils have been established, and court orders have been issued to establish courts for civil cases in these tehsils. Cases in Model Town were transferred from District Courts, and a similar notification has been issued for Raiwind. Model Town, District Courts, and Cantt Courts are already handling magistrate courts within their respective jurisdictions. Lahore High Court has now transferred the civil cases from Model Town Courts that fall within the limits of their police stations to Model Town Courts. Similarly, a notification has been issued for Raiwaind, and gradually, the same process will be implemented in the remaining tehsil courts.

The composition of civil cases varies, and the procedure for handling cases by magistrates differs. In civil cases, the complainant must appear during the trial, and the process involves active participation from the lawyers. Notices are served to all parties involved, and unilateral actions are not taken until all parties are presented in court or have been given the opportunity to do so.

In this manner, the lawyers have to present themselves in civil cases. After the complainant's appearance, the proceedings for the defendant's response begin. Different stages need to be followed, and the lawyers on both sides pay close attention to their respective cases. The Civil Procedure Code of 1898 governs the proceedings of civil cases, making it a challenging task for lawyers due to the focus on witness testimonies. The lawyers' roles become pivotal in the cross-examination of these testimonies, and a significant amount of time is dedicated to this process.

The magistrate court operating in criminal cases in the jurisdiction of the tehsil has a different nature of cases. The magistrate handles these cases with minimal lawyer involvement. As the Model Town Courts have transferred civil cases from Civil Court, a judge has mentioned that they have around 250 cases to deal with. It seems that each side will have around 500 lawyers appear, while in criminal cases, client is required to appear only during the testimony phase in these cases, which cannot happen without a lawyer. In one court appearance, if 15 people gave testimony for a single day, and all were noted down. Until all the witnesses are presented in court or those who haven't appeared are not unilaterally declared to be at Ex.Parte, a one-sided verdict is not made.

Hence, the lawyers have to appear themselves in cases where client has to appear. After that, the proceedings for the defendant's response start, and various steps need to be taken on both sides. Both sides' lawyers pay careful attention to their respective cases because the Civil Procedure Code of 1898, under which civil cases are heard, is a cumbersome process. The proceedings of these cases focus on witness testimonies and place the responsibility on the lawyers to center their attention on their side of the case.

The composition of civil cases varies, and the procedure for handling cases by magistrates differs. In civil cases, the complainant must appear during the trial, and the process involves active participation from the lawyers. Notices are served to all parties involved, and unilateral actions are not taken until all parties are presented in court or have been given the opportunity to do so.

In this manner, the lawyers have to present themselves in civil cases. After the complainant's appearance, the proceedings for the defendant's response begin. Different stages need to be followed, and the lawyers on both sides pay close attention to their respective cases. The Civil Procedure Code of 1898 governs the proceedings of civil cases, making it a challenging task for lawyers due to the focus on witness testimonies. The lawyers' roles become pivotal in the cross-examination of these testimonies, and a significant amount of time is dedicated to this process.

The magistrate court operating in Fojdari cases in the jurisdiction of the tehsil has a different nature of cases. The magistrate handles these cases with minimal lawyer involvement. As the Model Town Courts have transferred civil cases from Raeywaind, a judge has mentioned that they have around 1500 cases to deal with. It seems that each side will have around 500 clients if all lawyers appear, while Sa'il is required to appear only during the testimony phase in these cases, which cannot happen without a lawyer. In one court appearance, 15 people gave testimony for a single day, and all were noted down. Until all the witnesses are presented in court or those who haven't appeared are not unilaterally declared to be at fault, a one-sided verdict is not made.

Hence, the lawyers have to appear themselves in cases where Sa'il has to appear. After that, the proceedings for the defendant's response start, and various steps need to be taken on both sides. Both sides' lawyers pay careful attention to their respective cases because the Civil Procedure Code of 1898, under which civil cases are heard, is a cumbersome process. The proceedings of these cases focus on witness testimonies and place the responsibility on the lawyers to center their attention on their side of the case.

In conclusion, the division of courts and the distribution of cases in Lahore pose challenges for both lawyers and litigants. The increased workload, the need for extensive travel, and the complex procedures highlight the need for a more streamlined and efficient judicial system. Some argue that consolidating courts in Lahore would be more beneficial for the administration of justice, as it would reduce the burden on lawyers and provide a more convenient and accessible legal process for the people."

Tuesday, 23 January 2024

لاہور کی عدالتی کی تقسیم۔ حقائق؟ Division of Lahore Court

  •  لاہور کی عدالتی کی تقسیم۔  حقائق؟

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی  ایڈووکیٹ


انصاف انصاف جج صاحب انصاف: یہ ہیں وہ الفاظ جو ہر وکیل سارا دن عدالتوں میں اپنے کلائنٹس کے لیے ادا کرتے ہیں۔ ہر وکیل کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُس کے کلائنٹ کو انصاف مل جائے۔ کتنا عظیم کام ہے کتنا بڑا کام ہے جو وکلاء کو تفویض ہوا ہے۔ الوکیل خالق کا نام ہے۔ پاکستان میں متحدہ ہندوستان کے وقت سے انگریز کا قانون  لاگو ہے۔ اِن قوانین کو اسلامی قوانین کے تحت ڈھالنے کی سعی کی جاتی رہی ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق کوئی بھی قانون اسلام کے متصادم نہیں بن سکتا۔ کتابوں میں لکھے ہوئے قوانین کی حد تک تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ امن و آشتی کا منبع ہو نا چاہیے لیکن حقیقت حال مختلف ہے۔ قوانین کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ عوام الناس کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں لیکن پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی ہمیشہ یہ  کوشش رہی ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو با لکل اسی طرح جس طرح انگریز نے اِس خطے میں حکومت کی۔
لاہور  پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے گنجان آباد ہے۔ گڈ گورننس نام کی کوئی شے نہ ہونے کا شاخسانہ یہ ہے کہ لاہور میں تجاوزات کی بھر مار ہے ٹریفک کے مسائل اتنے گھمبیر  ہیں کہ بیان سے باہر۔۔ لاہور میں جب میٹرو بس اور اورنج ٹرین چلائی گئی تو اِن منصوبوں کی سخت مخالفت کی گئی لیکن وقت  ثابت کر رہا ہے کہ لاہور کے شہریوں کے لیے یہ کتنا کامیاب منصوبہ ثابت ہوا ہے۔ 
لاہور کی  ا نتظامی تقسیم میں جو تحصیلیں وجود میں آچکی  ہیں ان تحصیلوں میں بھی سول کیسیز کی  عدالتیں  قائم کرنے کے احکامات صادر کیے گئے ہیں۔ اِس ضمن میں ماڈل ٹاون کچہری میں سول کیسز ایوان عدل سے ٹرانسفر کردیے گئے اِسی طرح رائے ونڈ میں بھی تحصیل کورٹس قائم کیے جانے کے حوالے سے ایک نوٹیفکیشن  کردیا گیا ہے۔  ماڈل ٹاون،  ضلع کچہری، کینٹ کورٹس میں پہلے سے مجسٹریٹ کی عدالتیں اپنے اپنے علاقے کی حدود میں قائم تھانوں کے مقدمات  کے حوالے سے کام کر رہی ہیں۔اب لاہور ہائی کورٹ نے  ماڈل ٹاون  کچہری میں سول مقدمات جو اِسکے تھانوں کی حدود میں آتے ہیں وہ  ایوان عدل سے وہاں ٹرانسفر کردیئے ہیں  اور  اِس علاقے کے نئے دائر ہونے والے کیس  بھی اب ماڈل ٹاون  کچہری میں دائر ہونگے۔ اِسی طرح باقی کی تحصیل کورٹس میں بتدریج یہ عمل ہوگا
سول کیسیز کی کمپوزیشن مختلف ہوتی ہے اور مجسٹریٹ کے پاس چلنے والے کیسوں  کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔ سول کیسوں میں سائل نے خود کیس کی  شہادت کے دوران لازمی طور پر پیش ہونا ہوتا ہے باقی جو پراسیس چلتا ہے اُس میں و کیل کا ایکٹیو  کردار ہوتا ہے۔ نوٹس کروائے جاتے ہیں جتنے بھی کیس کے فریقین ہیں سب کو ہربار نوٹس کروایا جاتا ہے جب تک تمام فریقین عدالت میں پیش نہ ہوجائیں یا  جو پیش نہ ہوئے ہوں اُن کی حد تک یکطرفہ نہ کردیا جائے۔اِس طرح ان کیسوں میں وکیل نے خود پیش ہونا ہوتا ہے اِس کے بعد  کیس کے جواب  کے  معاملات چلنا شروع ہوتے ہیں اِس میں بھی مختلف مدارج طے کرنا ہوتے ہیں دونوں طرف کے وکیل اپنے اپنے کیس پر گہری نظر رکھے  ہوتے ہیں کیونکہ سول پروسیجر کوڈ 1898 جس کے تحت سول کیسوں کی سماعت ہوتی ہے وہ ایک گورکھ دھند ہ ہے اور یوں سول کیسوں کی سماعت اُس کی شہادتوں کا پراسیس اور پھر بحث  وکلاء کو  اپنی طرف مرکوز کیے رکھتی ہے۔ تحصیل سطع پر فوجداری کیسوں کی مجسٹریٹ کی عدالت جو کام کرتی ہے اُن مقدمات کی نوعیت یکسر مختلف ہوتی ہے۔ اُس میں وکیل کی حاضری بہت کم ہوتی ہے۔ جیسے ہی ماڈل ٹاون کی کچہری میں سول مقدمات ٹرانسفر کیے گئے ہیں اب ایک جج صاحب کی کاز لسٹ بتا رہی ہے کہ اُن کے پاس ڈھائی سو کیس لگے ہیں گویا کہ دونوں اطراف کے وکلاء
 صاحبان جو پیش ہوں گے وہ پانچ سو ہوں گے  جبکہ سائل  کی حاضری صرف  شہادت کی سطع پر کیسوں میں ہونا ہوتی ہے جو کہ وکیل صاحب کے بغیر نہیں ہوسکتی  ا یک عدالت میں اگر ایک دن میں پندہ  لوگوں کی  گواہیاں ہونی ہیں تو  اِس میں صرف اُن پندرہ لوگوں نے شہادت کے لیے آناہے۔  اِس طرح وکلاء کا  اکٹھ ایک جگہ بہت زیادہ کرلینا کیا یہ رش نہ ہے۔ سائل کے اگر اوہ کیس بھی ہیں تو پھر اسے دیگر کورٹس میں بھی جانا ہو گا۔ پس اس طرح سائل اور وکیل کو شٹل بنا دیا گیا ہے۔ سول مقدمات کی سماعت   کے لیے سائلین  ریفرنس  کے ذریعہ سے وکیل  کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا ہے  جو بھی کچہری میں  وکیل مل گیا اُسے ہی اپنا وکیل کر لیا۔ سول مقدمات برسوں چلتے ہیں تو اِس طرح وکلاء کو ہر تحصیل میں سارا دن گھمائے جانے کا کیا مقصد ہے وکیل جب لاہور کی پانچ چھ تحصیلوں میں  کیس کے لیے جائے گا تو وہ ہر تحصیل میں کیس پر اُس طرح توجہ کیسے دئے سکتا ہے جیسے اگر ایک ہی جگہ پر کیسیز چل رہے ہوں  تو وہ بہتر کام کرسکتا ہے۔ کراچی کا کل رقبہ 3,530   مربع کلو میٹر ہے  اور اِسکی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے  اور  اسکے سات اضلاع ہیں۔  تمام کورٹس پورے کراچی کی ایک جگہ ہی یکجا ہیں  جبکہ لاہور کی  آبادی ڈیرھ کروڑ سے کم ہے اور اِس کا رقبہ404 مربع کلومیٹر ہے۔ یوں لاہور کی سول کورٹس کو  شہر کے مختلف کونوں میں پھیلانا    انصاف کے قتل کے مترادف ہے کیونکہ اِس طرح  سائلین کے کیسوں کی سماعت میں بھرپور ان پٹ دینے کے لیے وکلاء کو پورے شہر میں چرخی کی طرح گھومنا پڑئے گا اسِ سے نقصان سائلین کو ہوگا۔ کیس کی لاگت بڑھ جائے گی اور وکلاء سول کیسوں کو جو ایک جگہ  پر نہیں لڑ سکیں گے  اور شتل کاک بنے رہیں گے۔ اور اِس سے بڑھ کر یہ کہ جو جلد انصاف کی فراہمی کا نعرہ لگایا جاتا ہے  عدالتوں کی اِس طرح تقسیم    سے اِس موقف کی  بھی نفی  ہوجاتی ہے۔ اِس لیے بہتر تو یہ ہے کہ سول  مقدمات کے ساتھ چھیڑ چھیڑ نہ کی جائے اور بہتر ہوگا کہ لاہو رکی تمام عدالتوں کو ایک جگہ ہی اکھٹا کردیا جائے تاکہ سائلین جو پہلے ہی اِس نظام انصاف سے شاکی ہے وہ مزید مشکلات کا شکار  نہ ہوں 
اِن حالات میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور چیف جسٹس آف پاکستان جو کہ خود بھی وکیل رہے ہیں وہ عوام کو مزید مشکلات میں دھکیلنے کی بجائے اُن کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ لاہو ربار ایسوسی ایشن کا جنرل ہاوس اجلاس جو کہ    23 جنوری  2024 کو صدر لاہور

بار  منیر حسین  بھٹی کی زیر صدارت منعقد ہوا  اِس جنرل ہاوس اجلاس میں پنجاب بار سپریم کورٹ بار کے نمائندگان نے بھی شرکت کی۔  اِس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اِس امر کا اعادہ کیا گیا کہ وکلاء کو  تقسیم کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔ اُن کا کہنا تھا کہ درحقیقت لاہور بار کی طاقت وکلاء جو ہر مشکل وقت میں قانون کی حکمرانی کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں اُن کو تقسیم کرنے کے لیے یہ کھیل کھیلا  جارہا ہے۔، جنرل ہاؤس اجلاس  کا ا یجنڈا سول اور فیملی کورٹس کی ماڈل ٹاؤن کچہری منتقلی کو منسوخ کرنا ہے وکلا کی تقسیم نامنظور ہے جعلی نوٹیفیکیشن واپس لیا جائے۔، منیر بھٹی صدر لاہور بار  نے کہا کہ ایشیا کی سب سے بڑی بار کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔ کل سے کوئی جج کسی عدالت میں نہیں بیٹھے گا۔جمعرات کے روز ہائیکورٹ کی تالہ بندی ہو گا۔جسٹس امیر بھٹی کے خلاف ریفرنس دائر کریں گے۔رزق اللہ پاک نے دینا ہے چیف جسٹس تم کیا ہو۔یہ چاہتے ہیں وکلا جمہوریت کی بات نہ کریں۔وکیل اللہ کی صفت ہیں جو مظلوموں کا سہارا بنتے ہیں۔وکیل کی طاقت اور کالے کوٹ پر آنچ  نہیں آنے دیں گے۔آذر لطیف سابق صدر لاہور بار کا کہنا تھا کہ نوٹیفیکیشن واپس نہ ہوا تو ہائیکورٹ کی تالہ بندی کی جائے گی۔سید محمد شاہ سابق صدر لاہور بار کا کہنا تھا کہ لگاتار ہڑتالیں چلنے کے باوجود وکلا کی بات نہیں سنی جا رہی ہے،   رشدہ لودھی ممبر پنجاب بار  کونسل کا کہنا تھا کہ غیر آئینی، غیر قانونی اور متنازعہ نوٹیفیکیشن ہم نہیں مانتے۔ذبیح اللہ ناگرہ   ممبر پنجاب بار کونسل نے کہا کہ ہماری جنگ عدلیہ سے نہیں ہے ایک فرد واحد کے ساتھ ہے۔ پاکستان میں انصاف کے حوالے سے جو بین الاقومی رینکنگ  ہے اُس کا آخری ممالک میں سے  تیسرا نمبر ہے  تو و  جہ صاف ظاہر کے اِس طرح کی پالیساں بنائی جاتی ہیں کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔