Saturday, 23 November 2024

Order 111 Civil Procedure Code 1908 .Can a suit reject because off defect in power of attorney

 آرڈر III سول پروسیجر کوڈ  1908  فریق کا ذاتی طور پر، تسلیم شدہ ایجنٹ، یا وکیل کے ذریعے پیش ہونا

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی  ایڈووکیٹآرڈر III سول پروسیجر کوڈ  1908  فریق کا ذاتی طور پر، تسلیم شدہ ایجنٹ، یا وکیل کے ذریعے پیش ہونا

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی  ایڈووکیٹ

سول پروسیجر کوڈ 1908 کا آرڈر III دیوانی مقدمات میں فریقین کو عدالت میں نمائندگی کے لیے تسلیم شدہ ایجنٹ یا وکیل کے ذریعے پیش ہونے کا ایک جامع طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔ یہ آرڈر ان فریقین کو مدد فراہم کرتا ہے جو ذاتی طور پر عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے، اور ان کے لیے منصفانہ طریقے سے نمائندگی کو ممکن بناتا ہے۔ ذیل میں آرڈر III کے ہر قاعدے کی تفصیل اور پاکستانی سپریم کورٹ کے اہم فیصلے دیے گئے ہیں:

قاعدہ 1: فریق ذاتی طور پر، تسلیم شدہ ایجنٹ، یا وکیل کے ذریعے پیش ہو سکتا ہے:یہ قاعدہ واضح کرتا ہے کہ:کوئی بھی فریق عدالت میں مقدمہ لڑنے کے لیے درج ذیل طریقوں میں سے کسی ایک کو اختیار کر سکتا ہے:عدالت  میں ذاتی طور پر پیش ہو۔ تسلیم  شدہ  ایجنٹ کے ذریعے نمائندگی کرے (جیسے کہ پاور آف اٹارنی رکھنے والا فرد)۔ وکیل (لائسنس یافتہ قانونی نمائندہ) کے ذریعے عدالت میں پیش ہو۔عدالت کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ فریق کی ذاتی حاضری کو ضروری قرار دے، خاص طور پر اگر عدالت سمجھے کہ مقدمے کے حقائق کو واضح کرنے کے لیے فریق کی موجودگی لازمی ہے۔                                                                                                               

عدالتی تشریح:فیصلہ علی محمد بمقابلہ محمد علی (PLD 1970 SC 323) میں سپریم کورٹ نے یہ اصول قائم کیا کہ فریق کی ذاتی حاضری صرف اس وقت لازمی قرار دی جا سکتی ہے جب عدالت یہ محسوس کرے کہ حقائق کو واضح کرنے کے لیے فریق کی موجودگی ضروری ہے اور یہ کام ایجنٹ یا وکیل کے ذریعے ممکن نہیں۔ اس فیصلے میں عدالت کی صوابدید کے اختیار پر زور دیا گیا جو کہ قاعدہ 1 کے تحت دی گئی ہے۔                                                                    

قاعدہ 2: تسلیم شدہ ایجنٹ:یہ قاعدہ تسلیم شدہ ایجنٹ کی تعریف فراہم کرتا ہے۔ درج ذیل افراد تسلیم شدہ ایجنٹ ہو سکتے ہیں:پاور آف اٹارنی رکھنے والے افراد: ایسے افراد جو ایک جائز اور قانونی پاور آف اٹارنی رکھتے ہوں جو انہیں فریق کی طرف سے تمام کارروائیاں کرنے کا اختیار دیتا ہو۔تجارت یا کاروبار کرنے والے افراد: ایسے ایجنٹ جو غیر مقامی فریق کی طرف سے اس کے نام پر تجارت یا کاروبار کرتے ہوں، بشرطیکہ ان کی کارروائیاں صرف اس تجارت یا کاروبار سے متعلق ہوں۔                                                                                                                                  

عدالتی تشریح:فیصلہ مسرت فریدہ خانم بمقابلہ حکومت پنجاب (2020 SCMR 1550) میں سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا کہ تسلیم شدہ ایجنٹ کے طور پر کارروائی کے لیے پاور آف اٹارنی کا ہونا لازمی ہے۔ عدالت نے یہ بھی وضاحت کی کہ اگر پاور آف اٹارنی غیر قانونی یا غیر مکمل ہو تو ایسی نمائندگی غیر مجاز سمجھی جائے گی۔ مزید برآں، بیرون ملک جاری شدہ پاور آف اٹارنی کو قانونی تقاضوں کے مطابق تصدیق شدہ ہونا چاہیے۔

قاعدہ 3: تسلیم شدہ ایجنٹ کو عدالتی نوٹس کی ترسیل:یہ قاعدہ درج ذیل باتیں بیان کرتا ہے:اگر کسی تسلیم شدہ ایجنٹ کو عدالتی نوٹس یا کوئی قانونی عمل بھیجا جائے، تو اسے ایسا ہی تصور کیا جائے گا جیسے کہ وہ براہِ راست فریق کو پہنچایا گیا ہو۔یہ قاعدہ ان تمام تسلیم شدہ ایجنٹس پر لاگو ہوتا ہے جو قاعدہ 2 کے تحت آتے ہیں۔                                                تشریح:فیصلہ نثار احمد بنام محمد امین (PLD 2011 SC 446) میں سپریم کورٹ نے یہ اصول واضح کیا کہ تسلیم شدہ ایجنٹ کو نوٹس کی ترسیل کی قانونی حیثیت کا انحصار اس ایجنٹ کی درست تعیناتی پر ہے۔ اگر ایجنٹ کو مناسب طریقے سے مجاز نہ بنایا گیا ہو تو نوٹس کی ترسیل غیر موثر سمجھی جائے گی۔ عدالت نے مزید کہا کہ قاعدہ 3 کا مقصد عدالتی کارروائی کو آسان بنانا ہے، بشرطیکہ ایجنٹ کی تعیناتی قانونی ہو۔                                                                     

سپریم کورٹ آف پاکستان کے قائم کردہ اہم اصول:اجازت نامہ لازمی ہے: سپریم کورٹ نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ تسلیم شدہ ایجنٹ یا وکیل کا اختیار قانونی طور پر جائز اور دستاویزی ہونا چاہیے۔ذاتی حاضری کا عدالت کا اختیار: عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ قاعدہ 1 کے تحت ضروری سمجھنے پر فریق کی ذاتی حاضری کا مطالبہ کر سکتی ہے۔نوٹس کی ترسیل: سپریم کورٹ نے اس بات کی توثیق کی کہ تسلیم شدہ ایجنٹ کو نوٹس کی ترسیل فریق کے لیے موثر اور لازم تصور کی جائے گی، بشرطیکہ ایجنٹ کی تعیناتی قانونی ہو۔                                                                                                      

عملی اہمیت :  نمائندگی میں آسانی: ایسے فریقین جو عدالت میں پیش ہونے سے قاصر ہیں، وہ تسلیم شدہ ایجنٹ یا وکیل کو اپنی طرف سے کارروائی کے لیے مجاز بنا سکتے ہیں، جس سے انصاف تک رسائی ممکن ہوتی ہے۔پاور آف اٹارنی کی اہمیت: پاور آف اٹارنی کو قانونی طریقے سے تیار اور تصدیق شدہ ہونا چاہیے تاکہ ایجنٹ مؤثر نمائندگی کر سکے۔نوٹس کی ترسیل میں آسانی: قاعدہ 3 عدالتی کارروائیوں کو موثر بناتا ہے کیونکہ تسلیم شدہ ایجنٹس کے ذریعے نوٹسز اور قانونی احکامات کی ترسیل آسان ہو جاتی ہے۔

عدالت کسی دعویٰ کو صرف پاور آف اٹارنی میں کسی خرابی کی بنیاد پر مسترد نہیں کر سکتی: کسی دعویٰ کو صرف پاور آف اٹارنی میں کسی خرابی کی بنیاد پر مسترد نہیں کر سکتی۔ پاور آف اٹارنی میں خامیاں ایک عملی معاملہ ہیں اور یہ مقدمے کے قابل سماعت ہونے کی بنیادی حیثیت کو متاثر نہیں کرتیں۔ دعویٰ کو مسترد کرنے کا معاملہ سی پی سی 1908 کے آرڈر VII رول 11 کے تحت طے کیا جاتا ہے، جو دعویٰ مسترد کرنے کی مخصوص وجوہات بتاتا ہے، جیسے عدالت کی دائرہ اختیار کی کمی، دعویٰ کے لیے وجہ ظاہر نہ کرنا، یا دعویٰ قانون کی نظر میں ناقابل قبول ہونا۔ پاور آف اٹارنی میں کسی خرابی کو ان وجوہات میں شامل نہیں کیا گیا۔

پاکستانی عدالتی تشریح:پاکستان کی عدالتوں نے یہ وضاحت کی ہے کہ پاور آف اٹارنی میں موجود خامیوں کو درست کیا جا سکتا ہے، اور ایسی خامیاں فریقین کے بنیادی حقوق پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔ دعویٰ مسترد کرنے کے بجائے عدالت مندرجہ ذیل اقدامات کر سکتی ہے:

خرابی کو درست کرنے کی اجازت دینا:

عدالت فریق کو ایک درست پاور آف اٹارنی جمع کرانے یا موجودہ خامیوں کو دور کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔

پاور آف اٹارنی کے بغیر کارروائی کرنا:بعض صورتوں میں، عدالت مدعی (پاور آف اٹارنی جاری کرنے والے فریق) کو ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر وکیل یا ایجنٹ کی کارروائیوں کی تصدیق کی اجازت دے سکتی ہے۔

متعلقہ عدالتی نظیریں:محمد یار بنام  محمد امین (2008 SCMR 222):سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ پاور آف اٹارنی میں موجود عمل کی خامیاں دعویٰ کو ناقابل قبول نہیں بناتیں۔ عدالت نے زور دیا کہ عملی خامیوں کی بنیاد پر انصاف کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔

مسرت غلام کبریٰ بنام  حکومت سندھ (PLD 1996 کراچی 401):اس مقدمے میں عدالت نے کہا کہ اگر پاور آف اٹارنی میں کوئی خرابی ہو، تو عدالت کو متعلقہ فریق کو موقع دینا چاہیے کہ وہ خامیوں کو درست کرے یا ذاتی حیثیت میں پیش ہو۔ ایک خراب پاور آف اٹارنی دعویٰ کو مسترد کرنے یا مقدمہ ختم کرنے کی بنیاد نہیں بن سکتی۔

عبدالوحید بنام محمد شفیع (PLD 2011 لاہور 310):لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ پاور آف اٹارنی میں معمولی تکنیکی خامیاں دعویٰ کو ختم کرنے کا جواز فراہم نہیں کرتیں۔ عدالت کو مقدمے کی میرٹ پر توجہ دینی چاہیے نہ کہ عملی بے قاعدگیوں پر۔

قانونی اصول:پاور آف اٹارنی میں خامیاں قابل اصلاح ہیں:عدالت پاور آف اٹارنی میں موجود خامیوں کو درست کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔

دعویٰ کو مسترد کرنے کا معیار:دعویٰ کو مسترد کرنا ایک اہم معاملہ ہے اور یہ صرف ان مخصوص وجوہات کی بنا پر کیا جا سکتا ہے جو آرڈر VII رول 11 سی پی سی میں بیان کی گئی ہیں۔ پاور آف اٹارنی میں موجود عملی مسائل ان وجوہات میں شامل نہیں ہیں۔

عملی طریقہ کار:اگر کسی پاور آف اٹارنی میں کوئی خامی ہو تو:مخالف فریق اعتراض اٹھا سکتا ہے۔عدالت خامی کو دور کرنے کے لیے ہدایات جاری کر سکتی ہے۔عدالت پہلے سے کی گئی کارروائی کو درست قرار دے سکتی ہے، بشرطیکہ متعلقہ فریق تصدیق کرے۔پاور آف اٹارنی میں کسی خرابی کی بنیاد پر دعویٰ مسترد نہیں کیا جا سکتا، لیکن عدالت عمل کو درست کرنے کے لیے مناسب ہدایات دے سکتی ہے۔ ایسے معاملات میں عدالت کا مقصد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا اور غیر ضروری رکاوٹوں سے بچنا ہوتا ہے



سول پروسیجر کوڈ 1908 کا آرڈر III دیوانی مقدمات میں فریقین کو عدالت میں نمائندگی کے لیے تسلیم شدہ ایجنٹ یا وکیل کے ذریعے پیش ہونے کا ایک جامع طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔ یہ آرڈر ان فریقین کو مدد فراہم کرتا ہے جو ذاتی طور پر عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے، اور ان کے لیے منصفانہ طریقے سے نمائندگی کو ممکن بناتا ہے۔ ذیل میں آرڈر III کے ہر قاعدے کی تفصیل اور پاکستانی سپریم کورٹ کے اہم فیصلے دیے گئے ہیں:

قاعدہ 1: فریق ذاتی طور پر، تسلیم شدہ ایجنٹ، یا وکیل کے ذریعے پیش ہو سکتا ہے:یہ قاعدہ واضح کرتا ہے کہ:کوئی بھی فریق عدالت میں مقدمہ لڑنے کے لیے درج ذیل طریقوں میں سے کسی ایک کو اختیار کر سکتا ہے:عدالت  میں ذاتی طور پر پیش ہو۔ تسلیم  شدہ  ایجنٹ کے ذریعے نمائندگی کرے (جیسے کہ پاور آف اٹارنی رکھنے والا فرد)۔ وکیل (لائسنس یافتہ قانونی نمائندہ) کے ذریعے عدالت میں پیش ہو۔عدالت کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ فریق کی ذاتی حاضری کو ضروری قرار دے، خاص طور پر اگر عدالت سمجھے کہ مقدمے کے حقائق کو واضح کرنے کے لیے فریق کی موجودگی لازمی ہے۔                                                                                                               

عدالتی تشریح:فیصلہ علی محمد بمقابلہ محمد علی (PLD 1970 SC 323) میں سپریم کورٹ نے یہ اصول قائم کیا کہ فریق کی ذاتی حاضری صرف اس وقت لازمی قرار دی جا سکتی ہے جب عدالت یہ محسوس کرے کہ حقائق کو واضح کرنے کے لیے فریق کی موجودگی ضروری ہے اور یہ کام ایجنٹ یا وکیل کے ذریعے ممکن نہیں۔ اس فیصلے میں عدالت کی صوابدید کے اختیار پر زور دیا گیا جو کہ قاعدہ 1 کے تحت دی گئی ہے۔                                                                    

قاعدہ 2: تسلیم شدہ ایجنٹ:یہ قاعدہ تسلیم شدہ ایجنٹ کی تعریف فراہم کرتا ہے۔ درج ذیل افراد تسلیم شدہ ایجنٹ ہو سکتے ہیں:پاور آف اٹارنی رکھنے والے افراد: ایسے افراد جو ایک جائز اور قانونی پاور آف اٹارنی رکھتے ہوں جو انہیں فریق کی طرف سے تمام کارروائیاں کرنے کا اختیار دیتا ہو۔تجارت یا کاروبار کرنے والے افراد: ایسے ایجنٹ جو غیر مقامی فریق کی طرف سے اس کے نام پر تجارت یا کاروبار کرتے ہوں، بشرطیکہ ان کی کارروائیاں صرف اس تجارت یا کاروبار سے متعلق ہوں۔                                                                                                                                  

عدالتی تشریح:فیصلہ مسرت فریدہ خانم بمقابلہ حکومت پنجاب (2020 SCMR 1550) میں سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا کہ تسلیم شدہ ایجنٹ کے طور پر کارروائی کے لیے پاور آف اٹارنی کا ہونا لازمی ہے۔ عدالت نے یہ بھی وضاحت کی کہ اگر پاور آف اٹارنی غیر قانونی یا غیر مکمل ہو تو ایسی نمائندگی غیر مجاز سمجھی جائے گی۔ مزید برآں، بیرون ملک جاری شدہ پاور آف اٹارنی کو قانونی تقاضوں کے مطابق تصدیق شدہ ہونا چاہیے۔

قاعدہ 3: تسلیم شدہ ایجنٹ کو عدالتی نوٹس کی ترسیل:یہ قاعدہ درج ذیل باتیں بیان کرتا ہے:اگر کسی تسلیم شدہ ایجنٹ کو عدالتی نوٹس یا کوئی قانونی عمل بھیجا جائے، تو اسے ایسا ہی تصور کیا جائے گا جیسے کہ وہ براہِ راست فریق کو پہنچایا گیا ہو۔یہ قاعدہ ان تمام تسلیم شدہ ایجنٹس پر لاگو ہوتا ہے جو قاعدہ 2 کے تحت آتے ہیں۔                                                تشریح:فیصلہ نثار احمد بنام محمد امین (PLD 2011 SC 446) میں سپریم کورٹ نے یہ اصول واضح کیا کہ تسلیم شدہ ایجنٹ کو نوٹس کی ترسیل کی قانونی حیثیت کا انحصار اس ایجنٹ کی درست تعیناتی پر ہے۔ اگر ایجنٹ کو مناسب طریقے سے مجاز نہ بنایا گیا ہو تو نوٹس کی ترسیل غیر موثر سمجھی جائے گی۔ عدالت نے مزید کہا کہ قاعدہ 3 کا مقصد عدالتی کارروائی کو آسان بنانا ہے، بشرطیکہ ایجنٹ کی تعیناتی قانونی ہو۔                                                                     

سپریم کورٹ آف پاکستان کے قائم کردہ اہم اصول:اجازت نامہ لازمی ہے: سپریم کورٹ نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ تسلیم شدہ ایجنٹ یا وکیل کا اختیار قانونی طور پر جائز اور دستاویزی ہونا چاہیے۔ذاتی حاضری کا عدالت کا اختیار: عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ قاعدہ 1 کے تحت ضروری سمجھنے پر فریق کی ذاتی حاضری کا مطالبہ کر سکتی ہے۔نوٹس کی ترسیل: سپریم کورٹ نے اس بات کی توثیق کی کہ تسلیم شدہ ایجنٹ کو نوٹس کی ترسیل فریق کے لیے موثر اور لازم تصور کی جائے گی، بشرطیکہ ایجنٹ کی تعیناتی قانونی ہو۔                                                                                                      

عملی اہمیت :  نمائندگی میں آسانی: ایسے فریقین جو عدالت میں پیش ہونے سے قاصر ہیں، وہ تسلیم شدہ ایجنٹ یا وکیل کو اپنی طرف سے کارروائی کے لیے مجاز بنا سکتے ہیں، جس سے انصاف تک رسائی ممکن ہوتی ہے۔پاور آف اٹارنی کی اہمیت: پاور آف اٹارنی کو قانونی طریقے سے تیار اور تصدیق شدہ ہونا چاہیے تاکہ ایجنٹ مؤثر نمائندگی کر سکے۔نوٹس کی ترسیل میں آسانی: قاعدہ 3 عدالتی کارروائیوں کو موثر بناتا ہے کیونکہ تسلیم شدہ ایجنٹس کے ذریعے نوٹسز اور قانونی احکامات کی ترسیل آسان ہو جاتی ہے۔

عدالت کسی دعویٰ کو صرف پاور آف اٹارنی میں کسی خرابی کی بنیاد پر مسترد نہیں کر سکتی: کسی دعویٰ کو صرف پاور آف اٹارنی میں کسی خرابی کی بنیاد پر مسترد نہیں کر سکتی۔ پاور آف اٹارنی میں خامیاں ایک عملی معاملہ ہیں اور یہ مقدمے کے قابل سماعت ہونے کی بنیادی حیثیت کو متاثر نہیں کرتیں۔ دعویٰ کو مسترد کرنے کا معاملہ سی پی سی 1908 کے آرڈر VII رول 11 کے تحت طے کیا جاتا ہے، جو دعویٰ مسترد کرنے کی مخصوص وجوہات بتاتا ہے، جیسے عدالت کی دائرہ اختیار کی کمی، دعویٰ کے لیے وجہ ظاہر نہ کرنا، یا دعویٰ قانون کی نظر میں ناقابل قبول ہونا۔ پاور آف اٹارنی میں کسی خرابی کو ان وجوہات میں شامل نہیں کیا گیا۔

پاکستانی عدالتی تشریح:پاکستان کی عدالتوں نے یہ وضاحت کی ہے کہ پاور آف اٹارنی میں موجود خامیوں کو درست کیا جا سکتا ہے، اور ایسی خامیاں فریقین کے بنیادی حقوق پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔ دعویٰ مسترد کرنے کے بجائے عدالت مندرجہ ذیل اقدامات کر سکتی ہے:

خرابی کو درست کرنے کی اجازت دینا:

عدالت فریق کو ایک درست پاور آف اٹارنی جمع کرانے یا موجودہ خامیوں کو دور کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔

پاور آف اٹارنی کے بغیر کارروائی کرنا:بعض صورتوں میں، عدالت مدعی (پاور آف اٹارنی جاری کرنے والے فریق) کو ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر وکیل یا ایجنٹ کی کارروائیوں کی تصدیق کی اجازت دے سکتی ہے۔

متعلقہ عدالتی نظیریں:محمد یار بنام  محمد امین (2008 SCMR 222):سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ پاور آف اٹارنی میں موجود عمل کی خامیاں دعویٰ کو ناقابل قبول نہیں بناتیں۔ عدالت نے زور دیا کہ عملی خامیوں کی بنیاد پر انصاف کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔

مسرت غلام کبریٰ بنام  حکومت سندھ (PLD 1996 کراچی 401):اس مقدمے میں عدالت نے کہا کہ اگر پاور آف اٹارنی میں کوئی خرابی ہو، تو عدالت کو متعلقہ فریق کو موقع دینا چاہیے کہ وہ خامیوں کو درست کرے یا ذاتی حیثیت میں پیش ہو۔ ایک خراب پاور آف اٹارنی دعویٰ کو مسترد کرنے یا مقدمہ ختم کرنے کی بنیاد نہیں بن سکتی۔

عبدالوحید بنام محمد شفیع (PLD 2011 لاہور 310):لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ پاور آف اٹارنی میں معمولی تکنیکی خامیاں دعویٰ کو ختم کرنے کا جواز فراہم نہیں کرتیں۔ عدالت کو مقدمے کی میرٹ پر توجہ دینی چاہیے نہ کہ عملی بے قاعدگیوں پر۔

قانونی اصول:پاور آف اٹارنی میں خامیاں قابل اصلاح ہیں:عدالت پاور آف اٹارنی میں موجود خامیوں کو درست کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔

دعویٰ کو مسترد کرنے کا معیار:دعویٰ کو مسترد کرنا ایک اہم معاملہ ہے اور یہ صرف ان مخصوص وجوہات کی بنا پر کیا جا سکتا ہے جو آرڈر VII رول 11 سی پی سی میں بیان کی گئی ہیں۔ پاور آف اٹارنی میں موجود عملی مسائل ان وجوہات میں شامل نہیں ہیں۔

عملی طریقہ کار:اگر کسی پاور آف اٹارنی میں کوئی خامی ہو تو:مخالف فریق اعتراض اٹھا سکتا ہے۔عدالت خامی کو دور کرنے کے لیے ہدایات جاری کر سکتی ہے۔عدالت پہلے سے کی گئی کارروائی کو درست قرار دے سکتی ہے، بشرطیکہ متعلقہ فریق تصدیق کرے۔پاور آف اٹارنی میں کسی خرابی کی بنیاد پر دعویٰ مسترد نہیں کیا جا سکتا، لیکن عدالت عمل کو درست کرنے کے لیے مناسب ہدایات دے سکتی ہے۔ ایسے معاملات میں عدالت کا مقصد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا اور غیر ضروری رکاوٹوں سے بچنا ہوتا ہے