Tuesday, 25 April 2023

آئین پاکستان کی چھتری تلے ریاستی ادارے باہم گریبان کیوں؟ Why are the state institutions under the umbrella of the Constitution of Pakistan conflicting? Sahibzada Mian Muhammad Ashraf Asmi Advocate

 آئین  پاکستان کی چھتری تلے  ریاستی ادارے باہم گریبان کیوں؟

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ               

چیئرمین ساوتھ ایشین لائرز یونٹی      


پاکستان کی تاریخ اور آئین پاکستان کی تاریخ  مختلف مراحل  سے گزرتی ہوئی  اِس موڑ پر آپہنچی ہے کہ اِس ملک کے ریاستی ادارئے ایک دوسرئے کی حدود کا حترام فراموش کرکے  اپنی اپنی ہانک رہے ہیں اورآئین پاکستان کے اصل اسٹیک ہولڈرز یعنی پاکستانی عوام  ہر محاذ پر خواہ  امن ومان کے مسائل ہوں، عدالتوں میں انصاف کا حصول ہو، گڈ گورنس میں حکومتوں کا کردار ہو  ہر جگہ سے تکلیف اُٹھارہے ہیں۔ موجودہ حالات میں پاکستانی  عدلیہ میں جو جوڈیشل ایکٹیوازم کے نام پر  کھیل کھیلا جارہا ہے اِس سے پاکستانی  عوام کی دُنیا بھر میں جگ ہنسائی ہورہی ہے۔  پاکستان کے سابق آرمی چیفس کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں حصہ لینے کے اعترافات  اِس بات کا مظہر ہیں کہ ملک میں آئین کی بالا دستی نہ ہے۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ عوام پر غیر ملکی حکمران  قابض ہیں اور عوام سے خراج  وصول کر رہے ہیں اتنی مہنگائی کی شرح  پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہ تھی۔ سیاسی عدام استحکام کی وجہ سے معاشی استحکام نہ ہو پا رہا ہے اور موجودہ حکومت کا کام صرف سابقہ حکومت کا رونا  ہی روتے رہنا ہے۔ ایسے تو پوری دُنیا میں اس وقت کساد بازاری کا   طوفان ہے لیکن پاکستان میں افراط زر کی شرح ناقابل برداشت  ہوچکی ہے۔ قانون کا ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے راقم یہ سمجھتا ہے کہ چونکہ آئین پاکستان پر نہ ماضی میں عمل ہوا اور نہ ہی اِس وقت ہورہا ہے اِس لیے ملک میں افراتفری کا عالم ہے۔سپریم کورٹ میں ججز کے گروپ جس طرح بنے ہوئے ہیں اِس نے بھی ہمارے اداروں کے کھوکھلے پن کو عیاں کردیا ہے سول اور ملٹری بیورو کریسی   کا کردار اور حالت زار   اس  بات کا غماز ہے کہ  آئین پاکستان پر اسکی کی روح   کے مطابق عمل نہ کیا جانا ہی  اس ملک کے تمام مسائل کی جڑہے۔                                                                                                                     

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئین کی بالا دستی کے حوالے سے جو باتیں حال ہی میں کی ہیں  وہ غور طلب ہیں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط عدالتی فیصلہ تھا، پاکستان توڑنے کا زہریلا بیج جسٹس منیر نے بویا جو پروان چڑھا اور دسمبر 1971 میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا،ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ووٹ سے سزائے موت دی گئی، آرٹیکل 184 تین کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے،یہ شق مظلوموں کے تحفظ کے لیے رکھی گئی تھی،184/3کا بھرپور استعمال ہوا، کئی مرتبہ اچھی طرح اور کئی مرتبہ بہت بری طرح،ہر کیس میں چاہے فوجداری ہو یا دیوانی کم از کم ایک اپیل کا حق ہوتا ہے، آئین کی شق 184 تھری کے تحت فیصلے کے خلاف آئین و قانون میں اپیل کا نہیں، یہ شق استعمال کرتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے،میری رائے میں 184 تھری کا اختیار سپریم کورٹ کا ہے،میرے دوستوں کی رائے ہے یہ اختیار صرف چیف جسٹس استعمال کرسکتا ہے، چیف جسٹس ماسٹر آف رولز ہیں شق بتا دیں، میں اصلاح کرلوں گا،تیسری رائے ہے 184تھری میں تمام ججز اور چیف جسٹس مشترکہ طور پر ہوں،اگر آپ کو تاریخ نہیں دہرانی تو تاریخ سے سیکھیں، تاریخ ہمیں 7 سبق دے چکی ہے اور کتنی بار سکھائے گی، آئین پاکستان جیسا تحفہ پھر نہیں ملے گا،ماضی سے سبق سیکھیں، غلط فیصلہ ایک کرے یا اکثریت، غلط ہی رہے گا،جس دن مجھ میں انا آگئی میں جج نہیں رہوں گا۔ بدھ کو آئین پاکستان، قومی وحدت کی علامت کے عنوان سے منعقدہ تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 1973کا آئین صرف سپریم کورٹ کیلئے نہیں، اس میں سب کے حقوق ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت آئین کو اس طرح پیش نہیں کیا جارہا، آئین صرف سیاست دانوں چند افراد پارلیمان اور عدلیہ کیلئے نہیں بلکہ عوام کیلئے ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان بننا مشکل کام تھا وہ تو 1947میں ہوگیا مگر لوگوں کو آئین دینے والا کام بروقت نہیں ہوا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 1956کی دستور ساز اسمبلی کے تحت الیکشن نہیں ہوا، 1958 میں ایک شخص نے اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کر مارشل لا لگایا دیا، 1962میں اس شخص نے اپنا آئین بنالیا، 1965میں اسی آئین کے تحت الیکشن ہوئے۔انہوں نے کہا کہ پوری طاقت کے باوجود حالات اس شخص سے نہ سنبھلے تو پھر ایک اور ڈکٹیٹر کے حوالے کردیاجس کے بعد 1971میں ملک ٹوٹ گیا، ملک اچانک نہیں ٹوٹا تھا بلکہ اس کا بیچ بویا گیا، یہ زہریلا بیج جسٹس منیر نے بویا تھا۔انہوں نے کہاکہ آئین کو اس طرح پیش نہیں کیاجاتا جس کا وہ مستحق ہے، آئین کسی ایک پارٹی کیلئے نہیں یہ کتاب سب کی ہے، آئین میرے لیے صرف کتاب نہیں ہے، اس میں لوگوں کے حقوق ہیں، ہم آئین کی تشریح کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب کوئی ناانصافی ہوتی ہے تووہ زیادہ دیر تک ٹھہرتی نہیں، بویا بیج جب پروان چڑھا تو اس نے پوری قوم کے ٹکڑے کر دئیے، جو کام ہم آج کرنے بیٹھے ہیں، اس کے اثرات صدیوں بعد بھی نکلیں گے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 1974 میں ملک میں پہلی بار عوامی نمائندگی سے آئین بنایا گیا، ضیاء  الحق 58 ٹو بی کا استعمال کر گئے، پھر اس کے بعد غلام اسحق نے 2 مرتبہ 58 ٹو بی کا استعمال کیا، مشرف نے خود کو آئین کی شق 277ٹریپل اے کے تحت خود کو ئینی تحفظ دیا۔انہوں نے کہا کہ اگر فیصلہ غلط ہے تو اکثریت کرے یا ایک کرے غلط ہی رہے گا، آج اگر جسٹس منیر کے فیصلے پر ریفرنڈم کرائیں تو شائد ہی کوئی حمایتی ہو، اگر آپ کو تاریخ نہیں دہرانی تو تاریخ سے سیکھیں، تاریخ پکار رہی ہے ماضی سے سبق سیکھو، تاریخ کتنا سکھائے گی 7 سبق تو دے چکی۔انہوں نے کہاکہ 1977کے انتخابات پر الزامات لگے کہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے، اس کے باوجود دونوں مخالفیں ٹیبل پر بیٹھے، دونوں فریقین میں معاملات طے ہوگئے معاہدے پر دستخط ہونا تھے، پھر ایک شخص آگیا جو 11 سال قوم پر مسلط رہا۔انہوں نے کہا کہ پھر عدالت سے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت ہوئی جس کے بعد جمہوریت پسندی اور ریفرنڈم کا ڈرامہ کیا گیا، جب ریفرنڈم ہوا ہے تو ٹرن آوٹ 98 فیصد رہتا ہے، حالانکہ ریفرنڈم میں پولنگ بوتھ خالی ہوتے ہیں، عام انتخابات روز شور سے ہوتے ہیں ٹرن آوٹ ساٹھ سے آگے نہیں جاتا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 184/3سپریم کورٹ کو اختیارات دیتا ہے، یہ شق مظلوموں کیلئے مزدورں کے لیے رکھی گئی تھی، یہ بچوں کی جبری مشقت اور خواتین کو تعلیم سے دور رکھنے سے متعلق تھی، ایسے افراد جن کو وکیل تک رسائی نہیں ان کے لیے ہے، مگر پاکستان میں اس کا بے تحاشہ استعمال کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ازخود نوٹس کی شق کے استعمال کے حوالے سے پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے، اس میں اپیل کا حق نہیں ہے اس لیے اس کے استعمال میں بہت محتاط ہونا چاہیے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ میری رائے میں ازخود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے، کہیں نہیں لکھا کہ یہ صرف سینیئر جج یا چیف جسٹس کا اختیار ہے، سپریم کورٹ کا مطلب تمام ججز ہے۔انہوں نے کہا کہ میرے دوستوں کی رائے ہے کہ سوموٹو کا اختیار چیف جسٹس کا ہے، شق بتادیں، میری اصلاح ہوجائیگی میں آپ کے نظریہ پر چل سکوں گا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کہ آئین ایسا تحفہ ہے جو دوبارہ نہیں ملے گا، آئین پر کئی وار ہوئے لیکن وہ آج بھی مضبوطی سے کھڑا ہے، 18 ویں ترمیم میں پرانی غلطیوں کو ہٹانے کی کوشش کی گئی، میری رائے کی اہمیت نہیں، رائے وہی ہوگی جو آئین میں لکھی ہو۔انہوں نے کہا کہ الیکشن میں شفافیت کے لیے نگراں حکومتوں کا تصور دیا گیا، جب تک لوگ آئین نہیں سمجھیں گے اس کی قدر بھی نہیں ہوگی۔انہوں نے کہاکہ جب سے میں جج بنا ہوں اس وقت سے میں نے کبھی یہ سفارش نہیں کی کہ مجھے فلاں قسم کے مقدمات میں بٹھایا جائے اور فلاں قسم کے مقدمات میں نہ بٹھایا جائے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم وفاق کو بھول چکے ہیں، 18 ویں ترمیم نے وفاق کو مضبوط کیا ہے، وفاق نے زیادہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کردیے۔انہوں نے کہاکہ سب سے بری چیز تکبر اور انا ہے، کسی عہدے پر ہوں تو آپ میں انا نہیں ہونی چاہیے، جس دن مجھ میں انا آگئی پھر میں جج نہیں رہا، اختلاف سے انا کا کوئی تعلق نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ زندہ معاشروں میں اختلاف رائے موجود رہتا ہے، سب تائید میں سر ہلانا شروع کردیں تو یہ بات بادشاہت اور آمریت ہوجائے گی۔انہوں نے کہاکہ ہم پر آئین کا زیادہ بوجھ ہے، ہم نے حلف اٹھایا ہے کہ آئین کا دفاع اور حفاظت کریں گے، جب تک لوگ آئین کو نہیں سمجھیں گے اس کی قدر نہیں ہوگی، ظالم کہتا ہے میری مرضی، آئین کہتا ہے لوگوں کی مرضی، زندہ معاشرے میں اختلاف رائے ہوتا ہے، سب تائید میں سر ہلانا شروع کردیں تو یہ بات بادشاہت اور آمریت ہوجائیگی، طرح طرح کے آرڈر جاری ہوتے ہیں، پتہ نہیں کسے بیوقوف بنا رہے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰنے کہا کہ آئین میں آرٹیکل 58 ٹوبی کی شق ڈالی کہ جب دل کرے منتخب حکومت کوبرطرف کرسکیں، 58 ٹوبی کا استعمال بھی کیا اور خود ہی کی منتخب جونیجو حکومت ختم کردی، 18 ویں ترمیم میں 58 ٹو بی کو ہٹایا، صوبوں کو اختیارات دیے گئے، سب سے بری چیز تکبر اور اس کے بعد انا ہے، آپ کسی عہدے پر بیٹھے ہیں تو انا نہیں ہونی چاہیے، جس دن مجھ میں انا آگئی میں جج نہیں رہوں گا، اختلاف سے انا کا تعلق نہیں ہے۔قارئین جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی ایک انسان ہیں اُن کی ذات سے سو اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن آئین کی بالاد ستی کے حوالے سے جو اُنھوں ایک پس منظر بتایا ہے  ہم ماضی سے سبق سیکھ کراآ ئندہ کے لیے ملک کا بہتری کے رااستے پر گامزن کر سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون نگار اشرف عاصمی ایڈووکیٹ  وکالت کے پیشے سے منسلک ہیں اور قانون کی کئی کتابوں کے مصنف ہیں                                                                    


Friday, 21 April 2023

قاضی فائز عیسیٰ بہادر، فرض شناس اور جمہوریت پسند جج Qazi Faez Isa


  قاضی فائز عیسیٰ بہادر، فرض شناس اور جمہوریت پسند جج

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

 


 پاکستانی عدلیہ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئین شناس اور بہادر جج کے طور پر مقام رکھتے ہیں۔  اِن کے خاندانی پس منظر

کا جائزہ لیتے ہیں۔قاضی فائز عیسٰی 26 اکتوبر 1959 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔اُن کا تعلق پشین کے ایک ممتار خاندان سے ہے۔ وہ مرحوم قاضی محمد عیسٰی کے صاحبزادے ہیں۔جوکہ تحریک پاکستان کے صف اول کے رہنما تھے۔اور قاضی جلال الدین کے پوتے ہیں جو کہ آزادی سے پہلے ریاست قلات کے وزیر اعظم تھے۔اُن کی والدہ بیگم سعدیہ عیسٰی تھیں۔جو کہ ایک سماجی کارکن تھیں اور بہت سے ہسپتالوں اور فلاحی اداروں کے بورڈ آف گورنرز کی رُکن تھیں۔وہ شادی شدہ ہیں اور دو بچوں کے باپ ہیں۔ جسٹس عیسٰی نے اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم کوئٹہ میں حاصل کی اور“O”اور“A”لیول کراچی گرائمر سکول سے کیا اور اسکے بعد BAآنرز)لاء(لندن سے کیا۔انھوں نے بار پروفیشنل امتحان لندن کیاِن سکول آف لاء سے کیا اور بار آف انگلینڈ اور ویلز)مڈل ٹیمپل 1982(میں درج ہوئے۔ وہ عدالت عالیہ بلوچستان میں 30 جنوری1985 میں ایک وکیل کے طور پر درج ہوئے اور 21 مارچ 1998 کو وہ عدالت عظمٰی میں وکیل کے طور پر منسلک ہوئے۔ جسٹس عیسٰی نے 27 سالوں تک مختلف عدالت عالیہ وفاقی شریعی عدالت اور عدالت عظمٰی کے سامنے پیش ہوتے رہے۔اور وہ بلوچستان ہائی کورٹ ایسوسی ایشن، سند ھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن آف پاکستان کے تا دم مرگ ممبر ہیں۔اُن کے جج بننے سے پہلے وہ ایک نامور لاء فرم کے سنئیر حصہ دار تھے۔وقفہ وقفہ سے اُنھیں عدالت عالیہ اور عدالت عظمٰی میں مشکل مقدمات میں مشورے کے لئے بلایا جاتارہا ہے۔وہ بہت سے بین الاقوامی مقدمات میں بھی پیش ہوتے رہے ہیں اور یہ مقدمات بہت سے قانونی رسالوں میں چھپتے رہے ہیں۔

ان کی ما حولیات اور عوامی مقدمات میں دلچسپی کی وجہ سے بلوچستان میں خصوصی قوانین آرڈیننس 1اور 2 آف 1968کا نفاذ ہوا بلوچستان با ر ایسوسی ایشن کی طرف سے (پی ایل ڈی 1991 کوئٹہ) انھوں نے عدالت عالیہ میں کوئٹہ بلڈنگ کوڈ کے خلاف ورزی پر ایک مقدمہ بھی درج کیا تھا جس کی وجہ سے ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ اسے نافظ کیا جائے تاکہ زلزلہ کی صورت میں اموات اور نقصانات کم سے کم ہو۔(پی ایل ڈی 1991 کوئٹہ-1) ورلڈ بنک کے معاون سے حیثیت سے اُنھوں نے ایک رپورٹ باعنوان“Report on the Legal Aspects of Acquisition of Land for the Proposed Karachi Mass Transit Project”تیار کی۔وہ“Promotion of Private Sector Participation in Highway Financing, Construction and Operation”میں قانونی ماہر تھے۔اس کے علاوہ وہ قانونی اور ماحولیاتی ماہر کے طور پر ایشین ڈیولپمنٹ بنک کے“Balochistan Groundwater Resources Reassessment”پروگرام میں شامل تھے جس میں ایشین ڈیولپمنٹ بنک کا مالی تعاون شامل تھا۔ اس کے علاوہ وہ اُس کنسوریشم کا بھی حصہ رہے جو کہ ورلڈ بنک کا پراجیکٹ“Technical Assistance for the Preparation and Implementation of Private Sector Participation in the Karachi Water Supply and Sewerage Sector”تھا۔وہ اعزازی طور پر پاکستان کے ایک بنک کے بورڈ آف ڈائریکٹر میں ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کرتے رہے ہیں۔ اسکے علاہ وہ پالیسی بورڈآف سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان اور قائد مزار منجمینٹ بورڈ کے بھی ممبر رہے وہ 1994 تک اسلامیہ لاء کالج یونیورسٹی آف کراچی میں آئین پاکستان اور برصغیر کی قانونی تاریخ کے پروفیسر رہے۔وہ ایک کتاب“Mass Media Laws and Regulations in Pakistan”کے مشترکہ لکھاری بھی ہیں۔ جسے ایشین میڈیا اور انفارمیشن سینٹر سنگاپور نے چھاپا اور یہ اس عنوان پر پہلی کتاب ہے۔اُنھوں نے”بلوچستان کیس اینڈ ڈیمانڈ“ نامی کتابچہ بھی لکھا ہے۔)جسے PILDAT نے 2007 میں شائع کیا(اسکے علاوہ اُنھوں نے قانون ماحولیات، اسلام، بلوچستان اور آئین پر بہت سے اداریے لکھے جو کہ مختلف ممتاز انگلش اخباروں میں شائع ہوئے۔وہ ان ججوں کے سامنے پیش نہیں ہوئے جنہوں نے 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے تحت حلف اُٹھایا تھا۔عدالت عظمٰی کی 31جولائی 2009 کے فیصلے کے بعد جس میں اُنھوں نے 3 نومبر 2007 کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا جس کی وجہ سے عدالت عالیہ بلوچستان کے تمام جج صاحبان مستعفی ہوگئے۔ان حالات میں جسٹس فائز عیسٰی کو بلایا گیا اور صوبہ بلوچستان میں کام کرنے کے لئے کہا گیا اور اُنھیں 5 اگست 2009 کو چیف جسٹس بلوچستان کا عہدہ دے دیا گیا۔حکومت پاکستان نے 1 اکتوبر 2010 میں اُس وقت عدالت عالیہ لاہور کے چیف جسٹس جناب خواجہ محمد شریف کے غیر قانونی اقدام قتل پر ایک کمیشن بنایا، جسٹس عیسٰی اس کمیشن کے چئیر مین بنے اس کمیشن میں عدالت عالیہ لاہور اور پشاور کے جج صاحبان رُکن تھے اس کمیشن کی رپورٹ حکومت کو جمع کروا دی گئی تھی۔

30 دسمبر 2011 کو عدالت عظمٰی نے ایک تین رُکنی کمیشن بنایا جو کہ اُس یاداشت کی اصلیت، جاننے کے بارے میں تھا جو کہ یو-ایس جوائنٹ چیف آف سٹاف مائیک مولین کو دیا گیا تھا۔یہ کمیشن جسٹس مُشیر عالم، جسٹس اقبال حمید الرحمن اور جسٹس قاضی فائز عیسٰی جو کہ عدالت عالیہ سندھ، اسلام آباد اور بلوچستان کے چیف جسٹس صاحبان تھے پرمشتمل تھا۔ چیف جسٹس عیسٰی اس کمیشن کے چئیرمین تھے۔انھوں نے مئی 2012 میں اپنی رپورٹ عدالت عظمٰی میں جمع کروا دی تھی۔ جسٹس عیسٰی نے پاکستان لاء اینڈ جسٹس کمیشن، نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی اور فیڈرل جوڈیشل کمیشن کے رُکن رہے اور اپنی خدمات عطا سر انجام دیں۔ جسٹس کے عہدے کے ساتھ ساتھ ان کے پاس بلوچستان جوڈیشل اکیڈمی کے چئیر مین کا عہدہ بھی تھا۔ چیف جسٹس عیسٰی سب سے سنئیر چیف جسٹس ہونے کی وجہ سے سپریم جوڈیشل کمیشن کے ممبر بھی تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسٰی 5 ستمبر 2014 کو عدالت عظمٰی پاکستان کے جج بن گئے۔

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط عدالتی فیصلہ تھا، پاکستان توڑنے کا زہریلا بیج جسٹس منیر نے بویا جو پروان چڑھا اور دسمبر 1971 میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا،ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ووٹ سے سزائے موت دی گئی، آرٹیکل 184 تین کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے،یہ شق مظلوموں کے تحفظ کے لیے رکھی گئی تھی،184/3کا بھرپور استعمال ہوا، کئی مرتبہ اچھی طرح اور کئی مرتبہ بہت بری طرح،ہر کیس میں چاہے فوجداری ہو یا دیوانی کم از کم ایک اپیل کا حق ہوتا ہے، آئین کی شق 184 تھری کے تحت فیصلے کے خلاف آئین و قانون میں اپیل کا نہیں، یہ شق استعمال کرتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے،میری رائے میں 184 تھری کا اختیار سپریم کورٹ کا ہے،میرے 

   لز ہیں شق بتا دیں، میں اصلاح کرلوں گا،تیسری رائے ہے 184تھری میں تمام ججز اور چیف جسٹس مشترکہ طور پر ہوں،اگر آپ کو تاریخ نہیں دہرانی تو تاریخ سے سیکھیں، تاریخ ہمیں 7 سبق دے چکی ہے اور کتنی بار سکھائے گی، آئین پاکستان جیسا تحفہ پھر نہیں ملے گا،ماضی سے سبق سیکھیں، غلط فیصلہ ایک کرے یا اکثریت، غلط ہی رہے گا،جس دن مجھ میں انا آگئی میں جج نہیں رہوں گا۔ بدھ کو آئین پاکستان، قومی وحدت کی علامت کے عنوان سے منعقدہ تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 1973کا آئین صرف سپریم کورٹ کیلئے نہیں، اس میں سب کے حقوق ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت آئین کو اس طرح پیش نہیں کیا جارہا، آئین صرف سیاست دانوں چند افراد پارلیمان اور عدلیہ کیلئے نہیں بلکہ عوام کیلئے ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان بننا مشکل کام تھا وہ تو 1947میں ہوگیا مگر لوگوں کو آئین دینے والا کام بروقت نہیں ہوا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 1956کی دستور ساز اسمبلی کے تحت الیکشن نہیں ہوا، 1958 میں ایک شخص نے اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کر مارشل لا لگایا دیا، 1962میں اس شخص نے اپنا آئین بنالیا، 1965میں اسی آئین کے تحت الیکشن ہوئے۔انہوں نے کہا کہ پوری طاقت کے باوجود حالات اس شخص سے نہ سنبھلے تو پھر ایک اور ڈکٹیٹر کے حوالے کردیاجس کے بعد 1971میں ملک ٹوٹ گیا، ملک اچانک نہیں ٹوٹا تھا بلکہ اس کا بیچ بویا گیا، یہ زہریلا بیج جسٹس منیر نے بویا تھا۔انہوں نے کہاکہ آئین کو اس طرح پیش نہیں کیاجاتا جس کا وہ مستحق ہے، آئین کسی ایک پارٹی کیلئے نہیں یہ کتاب سب کی ہے، آئین میرے لیے صرف کتاب نہیں ہے، اس میں لوگوں کے حقوق ہیں، ہم آئین کی تشریح کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب کوئی ناانصافی ہوتی ہے تووہ زیادہ دیر تک ٹھہرتی نہیں، بویا بیج جب پروان چڑھا تو اس نے پوری قوم کے ٹکڑے کر دئیے، جو کام ہم آج کرنے بیٹھے ہیں، اس کے اثرات صدیوں بعد بھی نکلیں گے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 1974 میں ملک میں پہلی بار عوامی نمائندگی سے آئین بنایا گیا، ضیاء  الحق 58 ٹو بی کا استعمال کر گئے، پھر اس کے بعد غلام اسحق نے 2 مرتبہ 58 ٹو بی کا استعمال کیا، مشرف نے خود کو آئین کی شق 277ٹریپل اے کے تحت خود کو ئینی تحفظ دیا۔انہوں نے کہا کہ اگر فیصلہ غلط ہے تو اکثریت کرے یا ایک کرے غلط ہی رہے گا، آج اگر جسٹس منیر کے فیصلے پر ریفرنڈم کرائیں تو شائد ہی کوئی حمایتی ہو، اگر آپ کو تاریخ نہیں دہرانی تو تاریخ سے سیکھیں، تاریخ پکار رہی ہے ماضی سے سبق سیکھو، تاریخ کتنا سکھائے گی 7 سبق تو دے چکی۔انہوں نے کہاکہ 1977کے انتخابات پر الزامات لگے کہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے، اس کے باوجود دونوں مخالفیں ٹیبل پر بیٹھے، دونوں فریقین میں معاملات طے ہوگئے معاہدے پر دستخط ہونا تھے، پھر ایک شخص آگیا جو 11 سال قوم پر مسلط رہا۔انہوں نے کہا کہ پھر عدالت سے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت ہوئی جس کے بعد جمہوریت پسندی اور ریفرنڈم کا ڈرامہ کیا گیا، جب ریفرنڈم ہوا ہے تو ٹرن آوٹ 98 فیصد رہتا ہے، حالانکہ ریفرنڈم میں پولنگ بوتھ خالی ہوتے ہیں، عام انتخابات روز شور سے ہوتے ہیں ٹرن آوٹ ساٹھ سے آگے نہیں جاتا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 184/3سپریم کورٹ کو اختیارات دیتا ہے، یہ شق مظلوموں کیلئے مزدورں کے لیے رکھی گئی تھی، یہ بچوں کی جبری مشقت اور خواتین کو تعلیم سے دور رکھنے سے متعلق تھی، ایسے افراد جن کو وکیل تک رسائی نہیں ان کے لیے ہے، مگر پاکستان میں اس کا بے تحاشہ استعمال کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ازخود نوٹس کی شق کے استعمال کے حوالے سے پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے، اس میں اپیل کا حق نہیں ہے اس لیے اس کے استعمال میں بہت محتاط ہونا چاہیے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ میری رائے میں ازخود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے، کہیں نہیں لکھا کہ یہ صرف سینیئر جج یا چیف جسٹس کا اختیار ہے، سپریم کورٹ کا مطلب تمام ججز ہے۔انہوں نے کہا کہ میرے دوستوں کی رائے ہے کہ سوموٹو کا اختیار چیف جسٹس کا ہے، شق بتادیں، میری اصلاح ہوجائیگی میں آپ کے نظریہ پر چل سکوں گا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کہ آئین ایسا تحفہ ہے جو دوبارہ نہیں ملے گا، آئین پر کئی وار ہوئے لیکن وہ آج بھی مضبوطی سے کھڑا ہے، 18 ویں ترمیم میں پرانی غلطیوں کو ہٹانے کی کوشش کی گئی، میری رائے کی اہمیت نہیں، رائے وہی ہوگی جو آئین میں لکھی ہو۔انہوں نے کہا کہ الیکشن میں شفافیت کے لیے نگراں حکومتوں کا تصور دیا گیا، جب تک لوگ آئین نہیں سمجھیں گے اس کی قدر بھی نہیں ہوگی۔انہوں نے کہاکہ جب سے میں جج بنا ہوں اس وقت سے میں نے کبھی یہ سفارش نہیں کی کہ مجھے فلاں قسم کے مقدمات میں بٹھایا جائے اور فلاں قسم کے مقدمات میں نہ بٹھایا جائے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم وفاق کو بھول چکے ہیں، 18 ویں ترمیم نے وفاق کو مضبوط کیا ہے، وفاق نے زیادہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کردیے۔انہوں نے کہاکہ سب سے بری چیز تکبر اور انا ہے، کسی عہدے پر ہوں تو آپ میں انا نہیں ہونی چاہیے، جس دن مجھ میں انا آگئی پھر میں جج نہیں رہا، اختلاف سے انا کا کوئی تعلق نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ زندہ معاشروں میں اختلاف رائے موجود رہتا ہے، سب تائید میں سر ہلانا شروع کردیں تو یہ بات بادشاہت اور آمریت ہوجائے گی۔انہوں نے کہاکہ ہم پر آئین کا زیادہ بوجھ ہے، ہم نے حلف اٹھایا ہے کہ آئین کا دفاع اور حفاظت کریں گے، جب تک لوگ آئین کو نہیں سمجھیں گے اس کی قدر نہیں ہوگی، ظالم کہتا ہے میری مرضی، آئین کہتا ہے لوگوں کی مرضی، زندہ معاشرے میں اختلاف رائے ہوتا ہے، سب تائید میں سر ہلانا شروع کردیں تو یہ بات بادشاہت اور آمریت ہوجائیگی، طرح طرح کے آرڈر جاری ہوتے ہیں، پتہ نہیں کسے بیوقوف بنا رہے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰنے کہا کہ آئین میں آرٹیکل 58 ٹوبی کی شق ڈالی کہ جب دل کرے منتخب حکومت کوبرطرف کرسکیں، 58 ٹوبی کا استعمال بھی کیا اور خود ہی کی منتخب جونیجو حکومت ختم کردی، 18 ویں ترمیم میں 58 ٹو بی کو ہٹایا، صوبوں کو اختیارات دیے گئے، سب سے بری چیز تکبر اور اس کے بعد انا ہے، آپ کسی عہدے پر بیٹھے ہیں تو انا نہیں ہونی چاہیے، جس دن مجھ میں انا آگئی میں جج نہیں رہوں گا، اختلاف سے انا کا تعلق نہیں ہے۔

قارئین آپ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حوالے سے جو کچھ اِس مضمون میں پڑھا ہے یقینی طور پر  پاکستانی قوم بجا طور پر فخر کرسکتی ہے کہ قحط الرجال کے دور میں قاضی فائز عیسیٰ جیسے جج  ہمارئے معاشرئے کے لیے امید کی کرن ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون نگار صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ وکالت کے شعبہ سے منسلک ہیں۔  انسانی حقوق  کے علمبردار  ہیں۔قانون کی متعدد کتب کے مصنف ہیں۔  ڈیجیٹل میڈیا پر قانون کے حوالے سے اِن کے کم وبیش چھ ہزار  لیکچر موجود ہیں۔

   دوستوں کی رائے ہے یہ اختیار صرف چیف جسٹس استعمال کرسکتا ہے، چیف جسٹس ماسٹر آف