مختار نامہ کی بنیاد پرپراپرٹی سے محرومی کے حوالے سے چیف جسٹس کا لینڈ مارک فیصلہ
صاحبزادہ میان محمدا شرف عاصمی ایڈووکیٹ
یہ کیس نمبر سول پٹیشن نمبر272 / 2022 ہے۔ جس کا فیصلہ اکتوبر2023 میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیا ہے۔ اِس کیس کے حقائق کچھ اِس طرح ہیں کہ فیاض احمد خان نے اپنی سگی بہن سراج بی بی سے ایک مختار نامہ لیا۔ یہ مختار نامہ ایک سو نو کنال زمین کی بابت تھا۔ فیاض احمد خان نے اِس مختار نامہ کی بنیاد پر اپنے سگے چار بیٹوں یعنی محمد ممتاز خان، غلام عباس خان، غلام شبیر خان اور غلام علی خان کو 109 کنال زمین فروخت کردی۔ اگر مختار نامہ کی نیاد پر اپنے سگے بیٹوں یا بیٹیوں یا اپنے خوانی رشتے کویا اپنی بیوی /خاوند کو پراپرٹی فروخت کرنا مقصود ہو تو پھر مختار نامہ میں واضع پر طور لکھا ہونا چاہیے کہ جس کو مختار نامہ دیا جارہا ہے وہ اِس پراپرٹی کو اپنی اولاد یا اپنی بیوی کو فروخت کرسکتا ہے۔ اور اگر مختار نامہ میں ایسا نہ لکھا ہوتو پھر اِس مختار نامہ کی بنیاد پر ہونے والی فروخت کی گئی پرپارٹی کی فروخت فراڈ قرار پائی جائے گی اور کنٹرکٹ ایکٹ 1872 کے 215 سیکشن میں ذکر شدہ معاہدہ کو منسوخ کیا جاسکتا ہے۔
متذکرہ مختار نامہ اِس زمین کی فروخت کی اجازت سگے بیٹو ں کو نہ دیتا تھا اور فیاض احمد خان نے اس کا غلط استعمال کیا سراج بی بی نے پٹیشنرز کے خلاف سول کورٹ میں دعوی برائے استقرار حق و منسوخی دستاویزات دائر کردیا ٹرائل کورٹ یعنی سول کورٹ نے فیصلہ سراج بی بی کے حق میں کردیا اور قرار دیا کہ مختار نامہ کی بنیاد پر جو زمین فروخت کی گئی فیاض احمد خان اِیسا کرنے کا مجاز نہ تھا۔ اِسی دوران سراج بی بی کی موت واقع ہوگئی۔ سراج بی بی کے وارثان نے پھر اِس کیس کو چلایا اور کیس ڈسٹرکٹ کورٹ اور ہائی کورٹ سے سراج بی بی کے حق میں ہی ہوا۔ مختار نامہ کے حامل فیاض احمد خان اور اُس کے چار بیٹوں / خریداروں کا رویہ ناقابل قبول تھا۔ ایک بہن اور پھوپھی کو اُن کی زمین سے غیر قانونی طور پر محروم کر دیا گیا۔اکثر ہمارئے معاشرے میں ایسا ہوتا ہے کہ معاشرئے کے بااثر افراد اپنی ہی بہنوں یا بیٹیوں کو ُٓن کے ھھکو اُن کی پراپرٹی سے محروم کردیتے ہیں۔ سراج بی بی اپنی زندگی میں اپنی زمین سے فائدہ نہ اُٹھا سکی حتی کے وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملی۔
فیاض احمد خان اور اُسکے بیٹوں نے پاکستان کے اسلامی جمہوریہ کے آئین کے آرٹیکل 24(1) کی خلاف ورزی کی، جو یہ یقینی بناتا ہے کہ کسی شخص کو اُس کی جائیداد سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ فیاض احمد خان اور اُس کے بیٹوں کا رویہ انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت ہے
سراج بی بی کی زمین کی متعلقہ خرید/منتقلی نے 1967 کے لینڈ ریوینیو ایکٹ کے 42 سیکشن کی خلاف ورزی کی اور ریونیو کے محکمے نے انتقال زمین کرتے وقت اپنی ذمہ داری پوری نہ کیں اور انہ ہی قانون کو پیش نظر رکھا۔ اِس حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے جات بطور نظیر پیش ہیں جو کہ یہ ہیں۔1 2023 SCMR 988،2 2022 SCMR 346،3 2022 SCMR 64،4 - PLD 2021 SC 812۔ پاکستان میں میں یہ روایت بن چکی ہے کہ مرد اپنی ہی بہنوں اور بیٹوں کا استحصال کرتے ہیں اور فراڈ کے ذریعے خواتین کو اُن کی پراپرٹی سے محروم کر دیتے ہیں۔ ملک کے عدلیہ کے نظام پر بھی ناجائز طور پربہت زیادہ بوجھ پڑتا ہے مردوں کی بدیانتی کی وجہ سے عدالتوں میں کیسوں کی بھرمار ہوجاتی ہے اور عدالتوں میں یہ کیس کئی نسلوں تک چلتے ہیں۔
درحقیقت یہ اللہ پاک کے حکم کی خلاف ورزی ہے اور گناہ کبیرہ ہے کہ اپنی ہی بہنوں کو اُس کی وراثتی پرپارٹی س ے محروم کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈئے استعمال کے جاتے ہیں۔
ریونیو افسر یا تو غیر قانونی انتقال زمین کو ریکارڈ کرنے میں شامل ہیں یا نااہل ہیں۔ ڈیپارٹمنٹ کو ان افسران کو محکمہ ریونیو سے نکالنا چاہئے کیونکہ یہ رائٹس کے ریکارڈ کو تبدیل کردیتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں حقدار کو کئی دہایؤں تک اذیت میں مبتلا رکھا جاتا ہے۔۔ پنجاب حکومت کو ہدایت دی جاتی ہے کہ اُن لوگوں کے خلاف کارروائی شروع کرے جو اس خرید فروخت میں شامل تھے، جو صرف اُن فراڈ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ عدالت اِس سی آر پی مسترد کر کر رہی ہے، مدعیوں کو فوراً اُن کی زمین کا قبضہ دلوایا جائے
متعلقہ ریونیو اتھارٹیز فوری طور پر اِن کو قبضہ لے کر دیں۔ سراج بی بی اِس زمین سے جو فائدہ فیاض خان اور اُسکے بیٹوں نے اٹھایا وہ بھی حاصل کرسکتی تھی لیکن اُس نے اپنے دعویٰ میں یہ نہیں مانگا تھا۔ بہرحال عدالت فیاض احمد خان اور اُص کے وارثان جنہوں نے فراڈ کیا۔ اُن کو دس لاکھ روپے جرمانہ کرتی ہے اور جرمانے کی رقم سراج بی بی کے وارثان کو ادا کی جائے۔
اپنی زندگی میں باپ کی جانب سے تمام جائیداد صرف بیٹوں کو دے دینا اور بچیوں کا جو حصہ بنتا ہو وہ نہ دینا۔یہ ہے وہ رویہ جو ہمارئے معاشرئے میں بُری طرح حاوی ہے۔ بیٹیوں کو باپ اپنے زندگی میں ہی اپنے ہر قسم کے اثاثہ جات سے محروم کر دیتا ہے اور گفٹ کے نام پرسارا کچھ بیٹوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ہمارئے ہاں یہ انداز فکر ہے کہ خواتین کی شادی اپنے سے کم مالی حیثیت والے کے ساتھ کی جاتی ہے۔اِس طرح ایک تو عورت کو ویسے ہی کم خوشحال گھرانے میں بیاہ دیا جاتاہے اور دوسرا پھر اُس کو حق وراثت بھی نہیں دیا جاتا تیسرا اُس عورت کے بچے بھی پھر معاشی طور پر کمزور ہوتے ہیں جس سے اُن کی اپنے ننھیال کے ساتھ رشتے داری نہیں ہو پاتی یا پھر سٹیٹس کا بہت فرق نمایاں ہوتا ہے جس سے معاشرتی اونچ نیچ کی خلیج بڑھتی چلی جاتی ہے۔ موجود ہ دور میں رویوں کے حوالے سے ہم بات کرتے ہیں کہ اگر باپ اپنی جائیداد بیٹوں کو دے دیتا ہے اور بیٹیوں کو کچھ نہیں دیتا تو ان حالا ت میں و ہ اپنی زندگی میں ہی خود کے لیے جہنم کا سودا کر لیتا ہے۔ کیا ہماری مقننہ، ہماری عدالت عظمیٰ،اِس حوالے سے کوئی واضع قانون سازی کیوں نہیں کرتی۔ قرآن سے شادی کے حوالے سے تو قانون سازی کردی گئی ہے اور اِس کے لیے دس سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ رکھا گیا ہے تو اِسی طرح اگر باپ اپنی جائیداد اپنی زندگی میں ہی حیلے بہانوں سے گفٹ کے نام اپنے بیٹوں کو دے جاتا ہے تو اس حوالے سے اجتہادی نقطہ نظر اختیار کیا جانا ازحد ضروری ہے
قرآن کی تین آیتیں وراثت کی تقسیم کی تفصیل بتاتی ہیں۔ وہ یہ ہیں۔“تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو توآدھا ترکہ اس کا ہے۔ اگر میت صاحبِ اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے۔ اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہو اور (صرف) والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ دیاجائے۔ اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصے کی حق دار ہو گی۔ (یہ سب حصے اس وقت نکالے جائیں گے) جبکہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کر دیا جائے۔ تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تماری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں اور اللہ یقینًا سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔”(سورۃ النساء آیت11)
قرآن مجید نے لڑکیوں کو حصہ دلانے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ لڑکیوں کے حصہ کو اصل قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ بتلایا اور بجائے لانثین مثل حظ الذکر(دو لڑکیوں کو ایک لڑکے کے حصہ کے بقدر) فرمانے کے للذکر مثل حظ الانثیین (لڑکے کو دو لڑکیوں کے حصہ کے بقدر) کے الفاظ سے تعبیر فرمایا۔بہنوں کو میراث سے محروم کرنا حرام ہے۔
حکومت قانون سازی کرے کہ جو والد اپنی زندگی میں ہی گفٹ کے نام پر اپنی بیٹیوں کو اپنی جائیداد سے محروم کردیتا ہے اور اپنی جائیداد بیٹوں کو دے دیتا ہے۔ ایسا کیا جانا دین اسلام کی روح کے خلاف ہے کہ باپ اپنی بیٹیوں کو اپنی جائیداد سے محروم کرے جہاں تک اِس بات کا تعلق ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی جائیداد جس کو چاہے دے دے تو کیا یہ ظلم نہیں ہے۔ اسلام کیا کسی پر ظلم روا رکھے جانے کی اجازت دے سکتا ہے۔ آئین پاکستان کی روح کے مطابق کسی کو اُس کی پراپرٹی سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ہمارئے معاشرئے مین ہبہ کے نام پر، تملیک کے نام پر بیع کے نام پر دستبرداری کے نام پر بیٹیوں کو اُن کی پراپرٹی سے محروم کیا جاتا ہے کیاں منبر ومحراب سے اِس حوالے سے ااواز نہیں اُٹھنی چاہیے کہ خدارا پہلے سے محروم طبقے کو مزید محرومی میں دھکیلنا کس قدر ظلم ہے۔ جس قاضی فائز عیسی صاحب کو چاہیے کہ اِس حوالے سے قانون سازی کروانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ حکمران اشرافیہ کو اِس سے کوئی غرض نہیں کہ ملک میں کیا ہورہا ہے۔ بلکہ حکمران اشرافیہ تو چاہتی ہے کہ عوام تھانے کچہریوں کے چکر میں پڑئے رہیں اور اشرافیہ اقتدار کے مزے لوٹتی رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون نگار صاحبزادہ میاں محمدا شرف عاصمی ایڈووکیٹ وکالت کے شعبے سے منسلک ہیں



