(چابی والا باوا ( افسانہ
اشرف عاصمی
ننھا پپو ابھی چھ سال کا تھا کہ اُس کا باپ فوت ہوگیا۔ گھر میں غربت نے ڈیرئے ڈال رکھے تھے۔پپو کا باپ محنت مزودری کرتا تھا ۔وہ کیا مرا اُس کے گھر میں بھوک اور افلاس نے بسیرا کر لیا۔گاؤں میں شائد سب سے غریب پپو کا گھر تھا۔پپو کا جی چاہتا کہ وہ کھیلے کودئے۔ ماں بہت مشکل سے کھیتوں میں کام کرکے نمک مرچ سے روٹی خود بھی کھاتی اور پپو کے نصیب میں بھی یہ ہی روٹی تھی۔پپو نے گاؤں کے نمبردار کے بچوں کو چابی والے باوئے سے کھیلتے دیکھا تھا۔اُس کے ننھے سے معصوم دل میں بھی یہ خواہش شدت اختیار کرتی گئی کہ اُس کے پاس بھی چابی سے چلنے والا باوا ہو۔پپو رات دن ماں سے فرمائش کرتا کہ ماں مجھے چابی والا باوا لے دئے ۔ ماں اُس کو پیار کرتی اور کہتی پپوُ پتر میرئے پاس پیسے نہیں ہیں جب پیسے ہوں گے تو ضرور تجھے لے دوں گی۔پپو رات دن چابی والے باوئے کے خواب دیکھتا۔اُسے ایسے لگتا کہ بہت سے چابی والے باوئے آسمان سے اُس کے گھر کے صحن میں اُتر رہے ہیں۔ بڑئے خوبصورت اور رنگ برنگے۔پپو جب خواب سے بیدار ہوتا تو وہ باوئے رفو چکر ہو چکے ہوتے ہے۔پپو کی ماں ۔پپو کی طرف سے چابی والے باوئے کی فرمائش سن سن کر تنگ آچکی تھی۔ ایک دن صبح صبح پپو پھر ضد کر بیٹھا کہ ماں مجھے چابی والا باوا لا دو۔ ماں غربت اور دُکھوں کی ماری روٹی سے تنگ اُس نے ایک زور دار تھپڑ پپو کے مُنہ پر رسید کیا۔ پپو چکرا کر گر گیا۔ماں اُسے مارنے کے بعد اتنا پچھتائی کہ اُس نے پپو کو گلے لگا لیا اور رونے لگ گئی اب دونوں ماں اور پُتر رو رہے تھے اور اللہ اُن کا رونا سُن رہا تھا۔ ماں کہتی پُت اللہ تمھیں چابی والا باوا دے گا۔ پپو ماں کو کہتا ماں اللہ کو کہو نا کہ مجھے ایک چابی والا باوا دئے دے۔ ماں کہتی پُتر اب جب میں چوہدرانی کے گھر کام کی کرنے جاؤں گی تو اُسے کہوگی کہ وہ دس روپے اُدھار دئے دئے اور پھر تجھے لا دوں گی۔پپو گاؤں میں ہر شخص کی طرف حسرت و یاس کی تصویر بنا دیکھتا رہتا اور سو چتا کہ شائد کوئی بھی شخص مجھے چابی والا باوا لے دئے اور میں پھر خوب اُس سے کھیلوں گا۔گاؤں کی مسجد سے جب اذان کی آواز آتی تو پپو ہمہ تن گو ش ہوجاتا وہ سمجھتا کہ یہ خدا کی آواز ہے او شاید وہ مجھے بھی بلا کر چابی والا باوا دئے دے۔لیکن پپو کی حسرتوں کو تعبیر نہ مل پا رہی تھی۔جب گلی میں بچوں کو گندی نالیوں کے پاس مٹی میں کھیلتے دیکھتا تو سوچتا کہ یہ گندئے بچے ہیں میں تو صاف ستھرا بچہ ہوں اور میں تو مٹی سے نہیں صرف چابی والے بادئے سے ہی کھیلوں گا۔ پپو کاشو ق بڑھتا گیا دن گزرتے جارہے تھے۔ پپو نے ضد کرکے ماں کو چوہدرانی کے گھر بھیجا کہ وہ اُس کا کام کرکے اُس سے کچھ ادھار ہی پیسے لے لے۔ ماں بے چاری چوہدرانی کے گھر گئی لیکن اُس دن چوہدرانی ساتھ والے گاؤں میں کسی شادی میں گئی ہوئی تھی۔ پپو اب چڑچڑا ہوتا جارہا تھا۔ اُسے اپنی ماں گاؤں کی چوہدرانی اور گاؤں کے سارئے لوگ ظلم دیکھائی دینے لگے کیونکہ اُن میں سے کوئی بھی اُس کو چابی والا باوا لا کر نہ دئے رہا تھا۔پپو نے ماں سے سن رکھا تھا کہ خدا سب کچھ دیتا ہے۔ لیکن اُس کی بات تو خدا بھی نہیں سن رہا تھا۔ماں سے جب بھی وہ چابی ولا باوا مانگتا ماں اُس کو غصے میں تھپڑ رسید کرتی۔ پپو کو اپنی ہی ماں ڈائن لگنے لگی تھی۔رات کو جب وہ اپنے صحن میں سو نے کے لیے چارپائی پر لیٹتا تو اُسے محسوس ہوتا کہ سارئے آسمان کے ستارئے رنگ برنگے چابی والے باوئے ہیں اور اُس کی جانب اُترتے آرہے ہیں۔لیکن پھر سب کچھ غائب ہوجاتا۔ایک دن صبح فجر کی اذان کی آواز سے پپو اُٹھ بیٹھا۔ اُس نے سوچا کہ وہ آج اللہ سے خود جاکر بات کرئے گا وہ گھر سے نکلا اور مسجد کی جانب چلنے لگا۔ مسجد کے لاوڈ سپیکر سے آواز آرہی تھی۔ وہ مسجد میں پہنچا تو مسجد پر اداسی چھائی ہوئی تھی سنسان مسجد تھی ۔لیکن گامو لوہار وہاں سپیکر میں اذان دئے رہا تھا۔ پپو کا دل بیٹھ گیا۔ اُس کی ساری اُمیدیں ٹوٹتی ہوئی دیکھائی دیں اُس کا خیال تھا کہ وہ اپنے رب سے جاکر چابی والا باوا مانگے گا لیکن وہ رب تو نہیں تھا وہ تو گامو لوہار تھا۔ گامو نے پپو کو دیکھاتو پوچھنے لگا کدھر اتنی صبح آئے ہو۔ پپو خاموشی سے واپس ہولیا۔ پپو کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔ پپو گھر کی جانب واپس ہولیا۔ وہ گھر کی طرف چلتا جارہا تھا اور بلک بلک کر روتا جارہا تھا۔ ابھی اندھیرا ہی تھا ۔ صاف دیکھائی نہیں دئے رہا تھا کہ ایک تیز رفتار ٹرائی ٹریکٹر نے ننھے پپو کو روند ڈالا۔ پپو موقع پر ہی جان بحق ہوگیا ۔گاؤں میں شور مچ گیا سب لوگ ننھے پپو کی لاش اُٹھائے اُس کے گھر پہنچے اور ماں ننھے پپو کی لاش دیکھ کر حواس کھو بیٹھی۔ پپو چابی والا باوا لینے کے لیے پریوں کے دیس جا چکا تھا۔