Saturday, 5 November 2016

جہد مسلسل صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ. l


جہد مسلسل 

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


اللہ پاک نے عشق رسول ﷺکی سرخیل تنظیم انجمن طلبہ ء اسلام کی قیادت ایک ایسے سپوت کو ایک دور میں بخشی کہ جس نے عشق رسولﷺ کی شمع فروزاں کرنے کے حوالے سے جو تگ و تاز کی اُس پر یقینی طور پر اللہ پاک راضی ہوگا۔ یہ قیادت ڈاکٹر ظفر اقبال نوری کی تھی کہ جس نے کشمیر پنجاب بلوچستان خیبر پختون خواہ میں عشق رسول ﷺ کے فروغ کے لیے طلبہء کی رہنمائی فرمائی۔پاکستان کی تاریخ میں ایسا باکردار طالب علم رہنما ء نہ ہوگا جس طرح کے کردار کی حامل ظفر نوری صاحب کی ہستی ہیں۔اِسی طرح طالب علمی کے زمانے کے بعد فلاح انسانیت کے لیے ڈاکٹر ظفر اقبال نوری نے مصطفائی تحریک کا آ غاز کیا۔ یوں تو پوری دُنیا میں فلاحی سماجی تحریکیں کام کر رہی ہیں ۔ پاکستان میں عشق رسولﷺ کی سرخیل تنظیم انجمن طلبہء اسلام کے ساتھ وابستہ نوجوانوں نے 1991میں ایک عظیم سماجی فلاحی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا مقصد بلاتخصیص مذہب ذات پات، رنگ نسل صرف اور صرف انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے خدمات سر انجام دینا قرار پایا۔انجمن طلبہ اسلام کے عظیم مشن سے وابستہ نوجوانوں نے جناب ڈاکٹر ظفر اقبال نوری کی قیادت میں مصطفائی تحریک کے سفر کا آغاز کیا۔محمد ﷺ کی محبت کے رشتے سے منسلک ہونے کی بناء پر انجمن طلبہ ء اسلام کے دوستوں نے مصطفائی تحریک کے کام کا دائرہ پوری پاکستان میں پھیلادیا۔یوں لفظ مصطفائی جسے حضرت اقبالؒ نے ایک صدی قبل اپنے اشعار میں بھی استعمال کیا تھا پاکستانی معاشرئے میں زبانِ زد عام ہوگیا ۔مصطفائی ماڈل سکول، المصطفی ویلفیر سوسائٹی، مصطفائی لنگر، مصطفائی میڈکل مشن،وطن عزیز میں پانی کے دور دراز علاقوں میں جہاں پانی ناپید تھا وہاں مصطفائی تحریک نے کنویں کھو دوائے،پاکستان کے کونے کونے میں ہزاروں مصطفائی ماڈل سکول کا جال بچھا دیا گیا۔ 2005 کے کشمیر کے زلزلے میں لنگر کا اہتمام ، زلزلہ زدگان کی بحالی ، میڈیکل کیمپ لگائے گئے یوں بہت بڑے انسانی المیے کے لیے مصطفائی تحریک نے بھر پور کام کیا۔انجمن طلبہء اسلام سے وابستہ افراد جن میں فاروق مصطفائی،حمزہ مصطفائی،عابد قادری، غلام مرتضیٰ سعیدی،طاہر انجم، امانت زیب ،معین نوری جیسی نابغہ روزگار ہستیوں نے مصطفائی تحریک کے بینر تلے فلاحی کاموں کے حوالے سے اپنی ذات کی بجائے اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے شب وروز کام کیا۔عشق رسولﷺ سے سرشار افراد فلاح وبہبود کے کام لیے اپنی توانائیاں صف کر رہے ہیں۔ 
تنقید کرنا بہت آسان ہے اور اکثر لوگ اپنی ذات کے حصار میں گم رہتے ہیں اور ہر کسی پر تنقید کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ لیکن مصطفائی تحریک نے جس طرح فلاح انسانیت کے لیے پاکستانی قوم کو آگاہی دی ہے اِس کے نظیر ملنا مشکل ہے۔مصطفائی تحریک کی جانب سے نبی پاکﷺ کی میلاد منانے کا بہت احسن طریقہ ہے کہ مصطفےﷺکا میلاد منانے کے لیے ہسپتالوں میں مریضوں کی عیادت کی جاتی ہے اور اُن کو ضروری اشیاء پر مشتمل گفٹ پیک پیش کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے۔ اور اِس میں وقت گزرنے کا ساتھ تیزی آتی جارہی ہے۔عظیم صوفی بزرگ حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کے سالانہ عرس کے موقع پر مصطفائی لنگر کا اہتمام ہوتا ہے جہاں پر انتہائی سلیقے کے ساتھ میز کرسیوں پر بٹھا کر زائرین کو لنگر کھلایا جاتا ہے۔یہ مصطفائی لنگر اِس عرس پاک کی پہچان بن چکا ہے۔اِسی طرح ملک بھر کے طول عرض میں ہونے والے عرائس کے موقع پر میڈیکل کیمپ لگائے جاتے ہیں۔ جہاں ایمبولینس کا انتظام ہوتا ہے اور ایمرجنسی کے لیے ادویات رکھی جاتی ہیں۔ معاشرئے میں فلاح و بہبود کے مشن سے آگاہی کے لیے مصطفائی تحریک کا کردار اتنا جاندار ہے کہ اِس عظیم سماجی تحریک سے وابستہ افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے اور اِس کا نیٹ ورک پورے پاکستان ، آزاد کشمیر گلگت بلتستان میں قائم ہے۔ کسی بھی تحریک کا محرک کوئی نہ کوئی اللہ کا بندہ ہوتا ہے۔ نبی پاکﷺ کی محبت کے طفیل مصطفائی تحریک کی سرپرستی عشق رسولﷺ کے عظیم سفیر جناب ڈاکٹر ظفر اقبال نوری، فاروق مصطفائی، غلام مرتضیٰ سعیدی کررہے ہیں۔ مصطفائی تحریک کا ایک ادنیٰ کارکن ہونے پر راقم کو فخر ہے۔ ڈاکٹر ظفر اقبال نوری کی فکر نے نبی پاکﷺ کے عشق کے طفیل مصطفائی تحریک کے مشن میں تگ و تاز پیدا کی ہے۔ فلاح انسانیت کے حوالے سے گذشتہ25 سالوں سے دُنیا بھر میں مصروف عمل مصطفائی تحریک کے بانی جناب ڈاکٹر ظفر اقبال نوری کو مصطفائی تحریک کی سلور جوبلی کے موقع پر انسانی حقوق کی عالمگیر تنظیم ہیومن رائٹس فرنٹ انٹرنیشنل کی جانب سے گورنمنٹ جامعہ ہائی سکول سرگودہا کے سابق پرنسپل جناب حسین احمد بھٹیؒ کی یاد میں اجراء شدہ حُسین احمد بھٹیؒ ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ یہ ایوارڈ ہر سال دُنیا بھر میں فلاح انسانیت کے حوالے سے کام کرنے والی شخصیات کو دیا جاتا ہے۔ایوارڈ کمیٹی ہیومن رائٹس فرنٹ انٹرنیشنل کے سربراہ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ،جسٹس (ر) میاں شاہد، صاحبزادہ پیر حکیم میاں محمد یوسف خان قادی نوشاہی ،ممتاز صحافی طارق اسماعیل ساگر، ممتاز شاعرہ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ پر مشتمل ہے۔دُنیا بھر کی فلاحی و انسانی حقوق کی تنظیموں نے جناب ڈاکٹر ظفر اقبال نوری کو مصطفائی تحریک کی سلور جوبلی اور حسین احمد بھٹی
ایوارڈ ملنے پر مبارکباد کے پیغامات ارسال کیے ہیں۔ مبارکباد کے پیغامات ارسال کرنے والوں میں مصطفائی تحریک کے امیر فاروق مصطفائی، سحر فاونڈیشن کے چےئرمین جناب افتخار غزالی، نامور ادیب معین نوری، انجمن طلبہ ء اسلام کے سابق مرکزی صدور غلام مرتضیٰ سعیدی،حافظ طارق، شمس المصطفے اسدی،نظام مصطفی پارٹی کے سربراہ حاجی حنیف طیب، شعبہ فلاسفی گورنمنٹ کالج یونیورستی لاہور کے سربراہ طفیل سالک،ورلڈ کالمسٹ کلب کے چےئرمین حافظ شففیق الرحمان،پاکستان فلاح پارٹی کے مرکزی رہنماؤں قاضی عتیق، امانت زیب، حبیب صدیقی، راشد گردیزی، ذیشان راجپوت،انجمن طلبہ ء اسلام کے رہنماؤں وقار شاہ، اکرم رضوی، عامر اسماعیل ، الزہر گرلز کالج سرگودہا کے ڈائریکٹر جاوید مصطفائی شامل ہیں۔ اب ذکر امیر تحریک کا ہوجائے جنہوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔ شھیدیعقوب قادریؒ نے اپنی زندگی کو جس طرح عشقِ رسولﷺ سے عبارت رکھا ۔اِس حوالے سے راقم کے تاثرات اپنے احباب جناب حاجی حنیف طیب، جناب میاں فاروق مصطفائی،جناب ڈاکٹر ظفر اقبال نوری، جناب غلام مرتضیٰ سعیدی ،جناب حمزہ مصطفائی،جناب امانت زیب، جناب خالد حبیب الھی، جناب رضاالدین صدیقی، جناب حافظ طارق محمود، جناب صفدر شاہ، جناب شاہد میر، جناب طاہر ہندلی، جناب افتخار غزالی، جناب ریاض ا لدین نوری، جناب معین نوری، جناب راجہ اظہر عباس، جناب اعجاز فقہی، جناب اسحاق رحمانی، جناب پروفیر ندیم احمد اشرفی، جناب عبدالوحید مغل،جناب عثمان نوری، جناب جمیل نعیمی ،جناب قاضی عتیق الرحمان، جناب راشد گردیزی، جناب میاں عبدالرشید بھٹی، جناب ڈاکٹر صدیق، جناب ڈاکٹر ظفر اقبال ظفر، جناب ڈاکٹر افتخار حنیف،جناب الطاف بخاری، جناب اختر نیازی، جناب منیر چوہدر ی ، جناب دوست علی، جناب فضل الرحمان اوکاڑوی، جناب شاہد رشید گلِ،جناب صاحبزادہ احمد ندیم رانجھا،جناب عبدالنوید حیدری، جناب خواجہ مزمل،جناب خواجہ صفدر امین،جناب پروفیسر احمد اعوان، جناب ڈاکٹرعبدالشکور ساجد، جناب ڈاکٹر اسحاق قریشی، جناب عطاالمصطفیٰ نوریؒ ،جناب ڈاکٹر جاوید صدیقی، جناب مقصود گیلانی، جناب امانت زیب ،جناب طاہر انجم، جناب میاں شھزاد،جناب قاسم مصطفائی، جناب جاوید مصطفائی، جناب حیدری (نوائے انجمن) جناب مظہر سلیم ججازی،جناب اسد جدون، جناب آفتاب عظیم، جناب ارحم سلیم قادری ، جناب زاہد رضا خان،جناب رانا خالد قادری، جناب معین الحق علوی، جناب حکیم غلام مرتضیٰ مجاہداور دیگر دوست احباب جن کا نام سہواً رہ گیا ہے اُن سب کی انشااللہ گواہی ہے کہ جناب یعقوب قادری ایڈووکیٹؒ کی زندگی حضرت اقبالؒ کے شاہین کی مانند تھی ۔ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جناب یعقوب قادریؒ حقیقی معنوں میں جناب حضرتِ بلالؓ، حضرت اویس کرنیؒ ، ٹیپو سلطان شھیدؒ کے سچے پیروکار تھے۔جناب یعقوب قادری شھیدؒ کو جس انداز میں یزید کے پیروکاروں نے شھید کیا وہ یہ کہ جناب قادری صاحبؒ روزے کے ساتھ تھے۔مجھے اندازہ ہی نہ ہو سکا تھاکہ راہ عشق ومستی کے سُرخیل جام شہادت نوش کرنے وا لے اتنی جلدی میں کیوں ہوتے ہیں جب خبر ملی کہ جناب یعقوب قادری ؒ ایڈووکیٹ شہادت کے رُتبے پر سرفراز ہوگئے ہیں جہاں قاتلوں کو شکست ہوئی ہے وہیں جناب قادری صاحبؒ کو میرے رب پاک نے جس مشن میں شہادت دی وہ تو وہی مشن ہے جس میں قادری صاحبؒ شھیدکو اقبال چوہدری شھید (سرگودہا) حضور بخش شھید، حافظ تقی شھید،حافظ افتخار شھید جیسے د وستوں کا ہمرکاب جو بننا تھا۔اِسی لیے اُنھیں جلدی تھی۔ الفاظ میں اتنی وسعت نہیں کہ جو کچھ اس عظیم انسان کے حوالے سے کہنے کی خواہش ہے وہ پوری ہو سکے۔ جناب قادری صاحبؒ عاشق رسولﷺ تھے اور وہ ابوجہل کے پیروکاروں کے لیے ننگی تلوار تھے۔ اِس لیے پاکستان بھر میں اہلسنت کے حوالے سے یا انجمن طلبہ اسلام کے حوالے سے کوئی اہم خدمات سر انجام دینی ہوتی تو پھر قادری صاحبؒ کے نام کا قُرعہ نکلتا سب دوستوں کو معلوم تھا کہ قادری صاحبؒ نے جھکنا سیکھا ہی نہیں وہ تو دربار نبی پاکﷺ کے سچے غلام تھے اُن کے سامنے نبی پاک ﷺ کی محبت کے دُشمن کیسے ٹھہر سکتے تھے۔ انجمن طلبہ اسلام جیسی آفاقی تحریک جس نے تعلیمی اداروں میں عشقِ مصطفےﷺ کے فروغ کا آغاز کیا تو جناب یعقوب قادری صاحبؒ اُن چند خوش نصیبوں میں شامل تھے جنہوں نے انجمن طلبہ اسلام کی بنیاد رکھی یہ 1968 کی بات ہے۔ بس پھر کیا تھا حاجی حنیف طیب جیسے دوستوں کے ساتھ مل کر ملک کے طول و عرض میں فروغ عشقِ رسول ﷺ کے لیے کام کیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اُن کا کردار ہمیشہ اے ٹی آئی کے طلبہ کے ساتھ بڑئے بھائی اور باپ والارہا۔ نواب شاہ سندھ کی دھرتی میں پروان چڑھنے والے جناب یعقوب قادریؒ انتہائی ایماندار اور مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے راقم جب جناب قادری صاحب ؒ کی قیادت میں مصطفائی تحریک میں خدمات انجام دے رہا تھا تو راقم کے ا نسٹی ٹیوٹ میں ہی مصطفائی تحریک کے مرکزی اور صوبائی اجلاس ہوتے جہاں جناب ڈاکٹر ظفر اقبال نوری ، جناب عطاالمصطفیٰ نوری، جناب پروفیسر ندیم اشرفی جناب پروفیسر ڈاکٹر جاوید صدیقی، جناب خواجہ صفدر امین، جناب سید مقصود گیلانی، غلام مرتضی سعیدی ، جناب طاہر انجم، جناب میاں خالد حبیب الھی ایڈووکیٹ ،جناب اسحاق ررحمانی، جناب بدر ظہور چشتی ،جناب صفدر شاہ ،جناب صاحبزادہ فضل الرحمان اوکاڑوی ،جناب پروفیسر ارتضیٰ اشرفی ،جناب پروفیسر احمد اعوان جناب پروفیسر ظہیر ہنجرا ،شاہد دلدار مرحوم ، عبدالوحید مغل ، محمد علی انجم ۔ ممتاز سعیدی ، معین علوی حافظ مشتاق زاہدؒ ، حکیم غلام مر تضیٰ اور دیگر فعال دوست تشریف لاتے اور قادری صاحب کی تشریف آوری بھی ہوتی اور یوں وطن عزیز کی صورتحال اورتنظیمی صورتحال پر گفتگو ہوتی ۔ قادری صاحبؒ چونکہ مصطفائی تحریک جماعت اہلسنت اور جمیت العمائے پاکستان سے وابستہ رہے بلکہ جس پلیٹ فارم پر بھی عشقِ رسول ﷺ کے فروغ کے حوالے سے کام ہورہا ہوتا وہی پلیٹ فارم اُن کا ہوتا۔ جناب یعقوب قادری صاحب ؒ نظام مصطفےﷺ کے داعی تھے اور نظام مصطفےﷺ کے عملی نفاذ کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ اللہ پاک اُن کے درجات بلند فرمائے۔ عمر کے اِس حصے میں جب آپؒ بزرگوں کی صف میں شامل تھے اتنا جوش وخروش اور فعال ہونا اِس بات کی دلیل ہے کہ اللہ پاک نے جناب قادری صاحب ؒ کو خصوصی طور پر نبی پاک ﷺ کے عشق کے فروغ کے مشن کے لیے چُنا ہوا تھا۔جناب یعقوب قادری ایڈووکیٹ ؒ کا بنگلہ دیش نامنظور تحریک، تحریک ختمِ نبوت ، تحریک نظامِ مصطفےﷺ میں بھرپور کردار رہا اور وہ ہر پروگرام اور ہر ہر جلوس میں پیش پیش رہے۔ اِس عظیم مردِ آہن کو دہشت گردوں نے جب شھید کیا تو اپنے طور پر تو اُنھو ں نے ایک شخص کو شھید کیا لیکن قادری صاحبؒ کے لیے لاکھوں آنکھیں اشکبار ہیں۔ ظالم قاتل ہمارے قادری صاحبؒ کو ہم سے الگ نہیں کرسکے قادری صاحبؒ شہادت کے مرتبے پر سرفراز ہوگئے وہ بھی روزے کی حالت میں جب آپ نمازِ ظہر کی ادائیگی کے لیے مسجد جارہے تھے۔ اللہ پاک قادری صاحب ؒ کے درجات بلند فرمائے۔یقینی طور پر مصطفائی تحریک کے افراد نے معاشرئے کی سوچ پر گہرئے اثرات مرتب کیے ہیں یوں عشق رسولﷺ کی شمع فروزاں کرنے کا جو مشن انجمن طلبہ ء اسلام کا ہے اُسی کا تسلسل مصطفائی تحریک ہے ۔ اور پاکستان فلاح پارٹی کا قیام بھی اِسی سلسلے کڑی ہے۔ 

Wednesday, 29 June 2016

چابی والا باوا ( افسانہ ) اشرف عاصمی


(چابی والا باوا                    ( افسانہ         

اشرف عاصمی

ننھا پپو ابھی چھ سال کا تھا کہ اُس کا باپ فوت ہوگیا۔ گھر میں غربت نے ڈیرئے ڈال رکھے تھے۔پپو کا باپ محنت مزودری کرتا تھا ۔وہ کیا مرا اُس کے گھر میں بھوک اور افلاس نے بسیرا کر لیا۔گاؤں میں شائد سب سے غریب پپو کا گھر تھا۔پپو کا جی چاہتا کہ وہ کھیلے کودئے۔ ماں بہت مشکل سے کھیتوں میں کام کرکے نمک مرچ سے روٹی خود بھی کھاتی اور پپو کے نصیب میں بھی یہ ہی روٹی تھی۔پپو نے گاؤں کے نمبردار کے بچوں کو چابی والے باوئے سے کھیلتے دیکھا تھا۔اُس کے ننھے سے معصوم دل میں بھی یہ خواہش شدت اختیار کرتی گئی کہ اُس کے پاس بھی چابی سے چلنے والا باوا ہو۔پپو رات دن ماں سے فرمائش کرتا کہ ماں مجھے چابی والا باوا لے دئے ۔ ماں اُس کو پیار کرتی اور کہتی پپوُ پتر میرئے پاس پیسے نہیں ہیں جب پیسے ہوں گے تو ضرور تجھے لے دوں گی۔پپو رات دن چابی والے باوئے کے خواب دیکھتا۔اُسے ایسے لگتا کہ بہت سے چابی والے باوئے آسمان سے اُس کے گھر کے صحن میں اُتر رہے ہیں۔ بڑئے خوبصورت اور رنگ برنگے۔پپو جب خواب سے بیدار ہوتا تو وہ باوئے رفو چکر ہو چکے ہوتے ہے۔پپو کی ماں ۔پپو کی طرف سے چابی والے باوئے کی فرمائش سن سن کر تنگ آچکی تھی۔ ایک دن صبح صبح پپو پھر ضد کر بیٹھا کہ ماں مجھے چابی والا باوا لا دو۔ ماں غربت اور دُکھوں کی ماری روٹی سے تنگ اُس نے ایک زور دار تھپڑ پپو کے مُنہ پر رسید کیا۔ پپو چکرا کر گر گیا۔ماں اُسے مارنے کے بعد اتنا پچھتائی کہ اُس نے پپو کو گلے لگا لیا اور رونے لگ گئی اب دونوں ماں اور پُتر رو رہے تھے اور اللہ اُن کا رونا سُن رہا تھا۔ ماں کہتی پُت اللہ تمھیں چابی والا باوا دے گا۔ پپو ماں کو کہتا ماں اللہ کو کہو نا کہ مجھے ایک چابی والا باوا دئے دے۔ ماں کہتی پُتر اب جب میں چوہدرانی کے گھر کام کی کرنے جاؤں گی تو اُسے کہوگی کہ وہ دس روپے اُدھار دئے دئے اور پھر تجھے لا دوں گی۔پپو گاؤں میں ہر شخص کی طرف حسرت و یاس کی تصویر بنا دیکھتا رہتا اور سو چتا کہ شائد کوئی بھی شخص مجھے چابی والا باوا لے دئے اور میں پھر خوب اُس سے کھیلوں گا۔گاؤں کی مسجد سے جب اذان کی آواز آتی تو پپو ہمہ تن گو ش ہوجاتا وہ سمجھتا کہ یہ خدا کی آواز ہے او شاید وہ مجھے بھی بلا کر چابی والا باوا دئے دے۔لیکن پپو کی حسرتوں کو تعبیر نہ مل پا رہی تھی۔جب گلی میں بچوں کو گندی نالیوں کے پاس مٹی میں کھیلتے دیکھتا تو سوچتا کہ یہ گندئے بچے ہیں میں تو صاف ستھرا بچہ ہوں اور میں تو مٹی سے نہیں صرف چابی والے بادئے سے ہی کھیلوں گا۔ پپو کاشو ق بڑھتا گیا دن گزرتے جارہے تھے۔ پپو نے ضد کرکے ماں کو چوہدرانی کے گھر بھیجا کہ وہ اُس کا کام کرکے اُس سے کچھ ادھار ہی پیسے لے لے۔ ماں بے چاری چوہدرانی کے گھر گئی لیکن اُس دن چوہدرانی ساتھ والے گاؤں میں کسی شادی میں گئی ہوئی تھی۔ پپو اب چڑچڑا ہوتا جارہا تھا۔ اُسے اپنی ماں گاؤں کی چوہدرانی اور گاؤں کے سارئے لوگ ظلم دیکھائی دینے لگے کیونکہ اُن میں سے کوئی بھی اُس کو چابی والا باوا لا کر نہ دئے رہا تھا۔پپو نے ماں سے سن رکھا تھا کہ خدا سب کچھ دیتا ہے۔ لیکن اُس کی بات تو خدا بھی نہیں سن رہا تھا۔ماں سے جب بھی وہ چابی ولا باوا مانگتا ماں اُس کو غصے میں تھپڑ رسید کرتی۔ پپو کو اپنی ہی ماں ڈائن لگنے لگی تھی۔رات کو جب وہ اپنے صحن میں سو نے کے لیے چارپائی پر لیٹتا تو اُسے محسوس ہوتا کہ سارئے آسمان کے ستارئے رنگ برنگے چابی والے باوئے ہیں اور اُس کی جانب اُترتے آرہے ہیں۔لیکن پھر سب کچھ غائب ہوجاتا۔ایک دن صبح فجر کی اذان کی آواز سے پپو اُٹھ بیٹھا۔ اُس نے سوچا کہ وہ آج اللہ سے خود جاکر بات کرئے گا وہ گھر سے نکلا اور مسجد کی جانب چلنے لگا۔ مسجد کے لاوڈ سپیکر سے آواز آرہی تھی۔ وہ مسجد میں پہنچا تو مسجد پر اداسی چھائی ہوئی تھی سنسان مسجد تھی ۔لیکن گامو لوہار وہاں سپیکر میں اذان دئے رہا تھا۔ پپو کا دل بیٹھ گیا۔ اُس کی ساری اُمیدیں ٹوٹتی ہوئی دیکھائی دیں اُس کا خیال تھا کہ وہ اپنے رب سے جاکر چابی والا باوا مانگے گا لیکن وہ رب تو نہیں تھا وہ تو گامو لوہار تھا۔ گامو نے پپو کو دیکھاتو پوچھنے لگا کدھر اتنی صبح آئے ہو۔ پپو خاموشی سے واپس ہولیا۔ پپو کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔ پپو گھر کی جانب واپس ہولیا۔ وہ گھر کی طرف چلتا جارہا تھا اور بلک بلک کر روتا جارہا تھا۔ ابھی اندھیرا ہی تھا ۔ صاف دیکھائی نہیں دئے رہا تھا کہ ایک تیز رفتار ٹرائی ٹریکٹر نے ننھے پپو کو روند ڈالا۔ پپو موقع پر ہی جان بحق ہوگیا ۔گاؤں میں شور مچ گیا سب لوگ ننھے پپو کی لاش اُٹھائے اُس کے گھر پہنچے اور ماں ننھے پپو کی لاش دیکھ کر حواس کھو بیٹھی۔ پپو چابی والا باوا لینے کے لیے پریوں کے دیس جا چکا تھا۔